سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہو گا
از قلم: رفعت شوکت کھرل
تمباکو ایک زرعی پیداوار ہے جو کہ ایک سالانہ فصل ہے، جو عام طور پر سگریٹ، نسوار اور دیگر مواد بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سائنسی ریسرچ کے مطابق تمباکو میں نیکوٹین موجود ہوتا ہے جو نشہ آور ہوتا ہے۔ تمباکو کے پتوں سے مزید نشہ آور ادویات بنائی جاتی ہیں جو کہ صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ اس طرح، سگریٹ بھی تمباکو کے پتوں کو خشک کر کے تیار کی جاتی ہے۔ سگریٹ کو جلانے اور اس کے دھویں کو سانس لینے سے نیکوٹین مادے کا اثر زیادہ ہوتا ہے جو نشہ آور ہے اور جسم میں مختلف نقصان دہ اثرات پیدا کرتا ہے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ مہنگائی کے اس دور میں بھی سگریٹ کا استعمال عروج پر ہے۔ یہ ایسی خاموش موت کا سبب بنتی ہے، جو انسان کو اندر ہی اندر سے ختم کر دیتی ہے۔ اس کے مسلسل استعمال سے امیر و غریب طبقہ موت کے موت میں دھنسا جاتا ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ پسماندہ طبقات ہی اس نشے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو آگاہی ہی نہیں ہوتی کہ جو سگریٹ کا استعمال وہ کثرت سے کر رہے ہیں تو اس کے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں؟
اس لیے لوگ نقصان کی پرواہ کیے بغیر سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ مگر سگریٹ بنانے والے اس بات سے با خبر ہوتے ہیں کہ وہ جو مواد استعمال کر رہے ہیں، وہ نہایت ہی زہریلا ہے۔ مگر اس کے برعکس ، سگریٹ بنانے والی کمپنیز دن رات ہی یہ زہریلا مواد تیار کر رہی ہیں اور سستے داموں بیچ رہی ہیں، تاکہ معاشرے کو جسمانی طور پر نقصان ہو۔
سگریٹ نوشی لیے نقصان دہ ہے کیونکہ اس کے شدید مضر اثرات ہیں۔ یہ جسم کو نقصان دہ کیمیکلز سے بے نقاب کرتی ہے جو پھیپھڑوں، دل اور خون کی نالیوں کو نقصان پہنچاتی ہے، جس سے سانس کی بیماریاں، قلبی مسائل اور کینسر ہوتے ہیں۔ اس کا مسلسل استعمال سے عوام گاہے بگاہے مفلوجیت کا شکار ہو رہی ہے، مگر پھر بھی حکمران اس بات سے ناواقف ہیں کہ غلط پروڈکٹس کو زیادہ ترجیح کیوں دی جا رہی ہے؟
سگریٹ نوشی کے نقصانات جاننے کے باوجود بھی عوام اسکو استعمال کر رہی ہے۔ اب غریب عوام کو اس نشے کی لت لگ چکی ہے، وہ تو ہر صورت خرید کر استعمال کریں گے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس پروڈکٹ کو سستے داموں بیچ کر عادی بنایا جا رہا ہے۔ جس سے غریب طبقہ مزید غربت کا شکار ہو رہا ہے۔ عوام اپنی جان کی پروا کیے بغیر اس کے استعمال کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔
حکمران ریاست سے درخواست ہے کہ وہ سگریٹ بنانے والی کمپنیوں پر پابندی عائد کر دے اور جو پروڈکٹس تیار شدہ ہیں، ان پر مزید ٹیکس لگا دیں تاکہ یہ زہریلا مواد عوام کی پہنچ سے دور رہے۔ ایسا کرنا نہایت مشکل کام ہے مگر ان اقدامات سے معاشرے میں تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔