سگریٹ پر ٹیکس، غریب کی پہنچ سے دوری
تحریر: طارق نوید سندھو، ڈسٹرکٹ رپورٹر باغی ٹی وی قصور
پاکستان میں تمباکو نوشی کا رجحان آئے روز بڑھتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل اس کے نشانے پر ہے جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ اگر بروقت تمباکو نوشی کے تدارک کے لیے مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو یہ ہماری نوجوان نسل کو دنوں میں تباہی کی طرف دھکیل دے گی۔ تمباکو بنانے اور ٹیکس چوری کے پیش نظر تمباکو پر ٹیکس اور ضوابط میں فوری اور مؤثر اصلاحات کی ضرورت ہے۔
حالات اس چیز کا تقاضا کرتے ہیں کہ نوجوانوں میں تمباکو نوشی کے بڑھتے رجحان کو روکنے کے لیے فوری عملی اقدامات کیے جائیں۔ تمباکو پر عائد ٹیکس کا پیچیدہ نظام، صنعتکار نرخوں میں غیر متناسب رد و بدل، برانڈ کی تنوع سازی، قیمتوں کی مصنوعی بلندی اور صارفین کو کم قیمت مصنوعات جیسے مختلف حربوں سے تمباکو کے صنعت کار نہ صرف ٹیکس سے بچ نکلتے ہیں بلکہ نوجوانوں میں تمباکو کی لت کو بھی فروغ دیتے ہیں۔
ای سگریٹس اور نکوٹین پاؤچز جیسے نئے رجحانات پر قواعد و ضوابط کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ بچوں میں نکوٹین کے استعمال کا مسئلہ اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جب وہ غیر منظم مصنوعات اور اشتہارات سے متاثر ہوتے ہیں۔ تمباکو کی صنعت نہ صرف اعداد و شمار میں ہیر پھیر کرتی ہے بلکہ بجٹ سے قبل ذرائع ابلاغ میں جھوٹے بیانیے پھیلانے کی مہم بھی چلاتی ہے۔ ہمیں اس کا مقابلہ ٹھوس اور سائنسی شواہد کے ساتھ کرنا ہو گا۔
تمباکو نوشی نوجوانوں کو نشے جیسی لعنت کی طرف دھکیلنے میں معاون ہو رہی ہے لہٰذا جلد اس کی روک تھام ضروری ہے۔ لیکن اس کی روک تھام کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا نظر آتا ہے۔ حقائق کسی اور طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آپ تمباکو نوشی کے تدارک کے لیے عملی قدم اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ آپ کے پیچھے ایسے ایسے مافیاز لگ جائیں گے کہ آپ جلد ہی اس سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ تمباکو اور منشیات سے پاک معاشرے ہمارا صرف خواب ہو سکتا ہے جس کی تکمیل ممکن نظر نہیں آتی۔
تمباکو نوشی ٹی بی، معدے کے مسائل، ہارٹ اٹیک اور بے شمار اور بیماریوں کا باعث بن رہی ہے۔ میرے ایک پروفیسر دوست بتانے لگے کہ ان کے والد کے بائی پاس پر وہ ہسپتال میں ڈاکٹر سے پوچھنے لگے کہ مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ یہاں دل کے تمام مریض دبلے پتلے ہیں۔ کیا موٹے لوگوں میں یہ بیماری موجود نہیں ہے؟ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ "انھیں یہاں پہنچنے کا موقع نہیں مل پاتا۔”
اب ہم بھی حالات کے ایسے دھارے پر آن کھڑے ہوئے ہیں کہ اگر تمباکو نوشی اور منشیات جیسی لعنت پر فوری قابو نہ پایا جا سکا تو شاید ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کو بھی ہسپتال پہنچنے کا موقع نہ مل سکے۔