سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا
تحریر: اقصیٰ جبار
تمباکو نوشی وہ زہر ہے جو مہذب پیکٹ میں چھپا ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ زندگی کو نگل لیتا ہے۔”
سگریٹ کا ہر کش بظاہر ہلکا سا لگتا ہے، مگر اس کا دھواں جسم کی رگ رگ میں بیماری، بربادی اور بےحسی گھول دیتا ہے۔ تمباکو نوشی اب صرف ایک فرد کی عادت نہیں، بلکہ معاشرے کا ناسور بنتی جا رہی ہے ، خاص طور پر ان طبقات میں، جو لاعلمی، غربت اور تھکن کا شکار ہیں۔

جب سگریٹ سستی ہو تو یہ زہر عام ہوتا ہے، جب مہنگی ہو تو رکاؤٹ بنتی ہے۔ ایک مزدور، جو روز دو وقت کی روٹی کے لیے مشقت کرتا ہے، اگر سگریٹ آسانی سے خرید سکتا ہے تو وہ اپنے بچوں کی روٹی، تعلیم اور علاج کو اس دھویں میں جھونک رہا ہے۔ لیکن جب یہی سگریٹ مہنگی ہو، جب اس پر ٹیکس ہو، تو وہ اپنی ترجیحات بدلنے پر مجبور ہوتا ہے — اور یہی "مجبوری” ایک نئی زندگی کا آغاز بن سکتی ہے۔

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ٹیکس سے غریب متاثر ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ سستا زہر ہی اصل بربادی ہے۔ اگر سگریٹ کی قیمت اس قدر ہو کہ ایک عام فرد اسے خریدنے سے پہلے دس بار سوچے، تو یہ سوچ ہی اس کے بچاؤ کی پہلی سیڑھی ہے۔ جو شخص چند لمحوں کی تسکین کے لیے اپنی صحت دائو پر لگا دیتا ہے، اس کے لیے قیمت بڑھانا شاید واحد عملی روک ہو۔

ٹیکس ایک معاشی اصطلاح سہی، مگر اس کا اطلاق اگر انسانی فلاح کے لیے ہو تو یہ محض "رقم” نہیں، بلکہ "رحمت” بن جاتی ہے۔ سگریٹ پر ٹیکس، دراصل آئندہ نسل کو بیماری سے، ماؤں کو غم سے، اور گھروں کو ویرانی سے بچانے کی ایک مؤثر تدبیر ہے۔

یہ تحریر صرف مخالفت برائے مخالفت نہیں، بلکہ شعور برائے بیداری ہے۔ اگر ہم ایک ایسی عادت پر خاموش رہیں جو روز سینکڑوں زندگیوں کو نگل رہی ہے، تو ہمارا سکوت بھی جرم بن جائے گا۔

سگریٹ پر ٹیکس لگے گا، تو ہو سکتا ہے:
کوئی باپ اپنے بیٹے کی کتاب خرید لے،
کوئی مزدور دوا خرید لے،
یا شاید کوئی نوجوان زندگی کو سنجیدہ لینا سیکھ لے۔

اگر ٹیکس سے کوئی سگریٹ چھوڑ دے، تو یہ ٹیکس نہیں… نجات کی کنجی ہے۔

Shares: