احمد آباد میں پیش آنے والے خوفناک طیارہ حادثے کی اصل وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ حادثے کی مختلف وجوہات زیرِ غور ہیں، جن میں کچھ ماہرین انجن کی تکنیکی خرابی کا امکان دے رہے ہیں جب کہ کچھ کا ماننا ہے کہ طیارے کی کسی چیز سے ٹکراؤ کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔ اس دوران امریکہ کے معروف ہوابازی ماہر جان ایم. کاکس نے ایک اہم دعویٰ کیا ہے کہ طیارے کے پرزے مناسب طریقے سے ترتیب نہیں دیے گئے تھے، جس کی وجہ سے یہ المناک حادثہ پیش آیا۔
جان ایم. کاکس نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے حادثے سے متعلق ویڈیو دیکھی ہے، اور اس میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ طیارے کے پرزے درست طریقے سے جُڑے یا ترتیب نہیں دیے گئے تھے، جس کے باعث پرواز کے فوراً بعد طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی نظر میں طیارے کے اوپر چڑھنے کے دوران سلیٹس اور فلیپس درست حالت میں نہیں تھے، جو کہ اس حادثے کی ایک ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے اور اس کی فوری جانچ ضروری ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم سیفٹی آپریٹنگ سسٹم کے چیف ایگزیکٹیو افسر جان ایم. کاکس کا کہنا ہے کہ ’’حادثے کی تصاویر اور ویڈیوز میں طیارے کا اگلا حصہ اوپر اٹھتا ہوا اور پھر نیچے گرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ طیارہ پرواز کے وقت مناسب لفٹ حاصل نہیں کر سکا۔‘‘ کاکس نے وضاحت کی کہ ’’سلیٹس اور فلیپس کو اس طرح ترتیب دیا جانا چاہیے کہ کم رفتار پر بھی پنکھ زیادہ لفٹ پیدا کر سکیں۔‘‘
جان ایم. کاکس کا یہ بیان خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ وہ امریکہ کے مشہور و معتبر ہوابازی ماہر ہیں اور بوئنگ جیسے عالمی سطح پر معروف طیارہ ساز ادارے سے وابستہ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ بھی بوئنگ کا ہی تھا، اس لیے کاکس کے بیان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری جانب امریکی حکومت نے بھی کہا ہے کہ اگر بھارت کی حکومت اجازت دے تو وہ اس حادثے کی مکمل تحقیقات کرنا چاہیں گے۔ امریکہ کی نیشنل ٹرانسپورٹ سیفٹی بورڈ (این ٹی ایس بی) کو اس جانچ کا ذمہ دیا گیا ہے، جو سالانہ 450 بین الاقوامی اور 2000 سے زائد ملکی حادثات کی تحقیقات کرتا ہے۔
ادھر احمد آباد میں حادثے کے بعد طیارے کے بلیک باکس کو محفوظ کر لیا گیا ہے، جسے فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر بھی کہا جاتا ہے۔ بلیک باکس طیارے کے تمام اہم ڈیٹا کو ریکارڈ کرتا ہے اور حادثے کی وجوہات جاننے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بھارت میں طیاروں کے آپریشن کی نگرانی شہری ہوابازی ڈائریکٹوریٹ (ڈی جی سی اے) کے تحت ہوتی ہے، اور اسی ادارے کی جانب سے اب اس حادثے کی تحقیقات کی جائے گی۔








