طیارہ حادثے کو ایک سال، غمزدہ خاندانوں کو انشورنس کی رقم نہ مل سکی

0
33

قومی ایئر لائن کے کراچی ایئر پورٹ کے قریب رہائشی آبادی پر گرکرتباہ ہونے والے طیارہ حادثے کو ایک سال گزرگیا تاہم متاثرہ خاندانوں کوانشورنس کی رقم نہیں مل سکی ہے۔

22مئی 2020کو جمعہ کے روز پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 نے لاہورکے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے دن ایک بجکر 10منٹ پر کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے لیے اڑان بھری اوردوپہر 2بجکر 37منٹ پر طیارہ ایئر پورٹ کے قرب میں واقع جناح گارڈن کی رہائشی آبادی پرگرکرتباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں پی آئی اے کے عملے کے8ارکان سمیت 97 افرادجاں بحق ہوگئے تھے اور2 مسافر خوش قسمت رہے تھے۔حادثے میں کئی مکانات مکمل اورجزوی طورپر تباہ ہوگئے اورگھروں کے باہر پارک کئی گاڑیوں اورموٹر سائیکلوں کو بھی نقصان پہنچا تھا، طیارے کے حادثے میں جانیں گنوانے والے متاثرہ خاندانوں کو ایک سال گزرنے کے بعد بھی پی آئی اے نے انشورنس کے ایک کروڑ روپے کی ادائیگی نہیں کی ہے۔

متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ دستاویزات پر دستخط کے لیے تیار ہیں لیکن قانونی حق سے دست بردار نہیں ہوں گے،انشورنس کے لیے وہ ایسی دستاویزات پردستخط نہیں کریں گے جس سے ان کا قانونی حق ختم ہو جائے۔انشورنس ہماراحق ہے،ٹکٹ خریدتے وقت اس کی ادائیگی کی ہے،ڈاکٹرمحمدمحسن طیارہ حادثے کے متاثرہ شخص ڈاکٹر محمد محسن کاکہناہے کہ انشورنس ہمارا حق ہے، ٹکٹ خریدتے وقت اس کی ادائیگی کی ہے،حکومت سے3 گزارشات ہیں ،اول متاثرین کو طیارہ حادثہ کی تحقیقات میں شامل کیا جائے،دوم انشورنس کی رقم کی ادائیگی کو آر ڈی اے پر دستخط سے مشروط نہ کیا جائے اورتیسری ایک ایسے ایمرجنسی رسپانس سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے جس تک ہر شہری کی رسائی ہوتاکہ اس قسم کے حادثات کی صورت میں فوری طورپردادرسی ہوسکے۔

والدکے بجائے کسی اور شخص کی لاش حوالے کی گئی،زرقا حادثے میں والد کو کھونے والی زرقا چوہدری کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھاکہ والد دومہینے کے بعد لاہور سے عید منانے کراچی آرہے تھے اس وقت گھرمیںان کے استقبال کی تیاریاں ہورہی تھیں کہ اس دوران لاہور سے بہن کی کال آئی کہ کراچی میں کوئی طیارہ گرکر تباہ ہوگیا ہے۔زرقا کے مطابق جائے حادثہ پر انھوں نے جوافراتفری کا عالم دیکھا اس سے ان کو لگاکہ پروفیشنل ازم کا بہت بڑا فقدان ہے،اس بدانتظامی سے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے یہ حالات پی آئی اے اورسول ایوی ایشن کے لیے بھی بالکل نئے ہو۔زرقا کے مطابق انھوں نے 3روز بعد والد کی میت جناح اسپتال میں شناخت کرلی تھی مگر وہاں پر انھیں کہا گیا کہ جب تک سائنسی ثبوت نہیں مل جاتے لاش آپ کے حوالے نہیں کی جاسکتی ہے،7دن گزرجانے کے بعد بھی ان کی ڈی این اے رپورٹ کا کوئی پتہ نہیں تھا۔بلاآخر لاہور میں مقیم ان کی ایک بہن نے وہیں پرڈی این اے ٹیسٹ دیا، زرقا چوہدری نے الزام عائدکیا ہے کہ اس بے ہنگم صورتحال کے دوران بہت سی لاشیں تبدیل ہوچکی تھیں کیونکہ انھیں جولاش دی گئی تھی وہ اسپتال میں شناخت کی جانے والی لاش نہیں بلکہ کوئی دوسری لاش تھی مگر والدہ کی بگڑتی حالت کے پیش نظرانھوں نے کمپرومائز کیا اگرمجھے یہ معلوم ہوتاکہ والدکے انتقال کے14روز بعد صدمے کی وجہ سے والدہ بھی دنیا سے چلی جائیںگی تو وہ اس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتیں ۔

Leave a reply