اساتذہ کااحتجاج،غریب طلباء کاتاریک ہوتامستقبل
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
پنجاب حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی لیوانکیشمنٹ پالیسی میں ترمیم اور سکولوں کی نجکاری کیخلاف پنجاب بھر میں اساتذہ اور دوسرے تمام صوبائی محکموں کے ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔ کئی شہروں میں تدریسی عمل معطل ہوچکا ہے جبکہ پولیس نے متعدد ٹیچرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کو گرفتار کررکھا ہے۔سرکاری تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل گذشتہ کئی روز سے معطل ہے اور اساتذہ کی جانب سے احتجاج جاری ہے۔ اساتذہ نے اپنے مئوقف میں کہا ہے کہ ان کے مطالبات کو فوری منظور کیا جائے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری کے خلاف احتجاج جاری رہے گا۔ پنجاب حکومت لیوانکیشمنٹ، سکولوں کی نجکاری کا فیصلہ فوری واپس لے۔
اس قسم کی روزانہ خبریں سوشل میڈیا اور مین سٹریم ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر پڑھنے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر میڈیا کوریج کیلئے بھی ان حتجاجی ریلیوں میں جانا پڑتا ہے اور حالات وواقعات کو قریب سے دیکھنے اور ملازمین کا مئوقف بخوبی جاننے کاموقع ملا ،جن کے مطالبات جائزہیں اور ایسی صوبائی حکومت جو مانگے کی ہے جس کے پاس کوئی مینڈیڈیٹ بھی نہیں وہ اس قسم کے ظالمانہ فیصلے زبردستی مسلط کرنے لگی ہے
ان جابرانہ اقدامات کوواپس لینے کیلئے تمام صوبائی سرکاری ملازمین بشمول اساتذہ کا احتجاج جاری ہے ،پنجاب کی صوبائی حکومت بوکھلاہٹ کا شکارہوگئی اورگھبرا کر پنجاب پولیس کے ذریعے لاہور میں جاری اساتذہ کے دھرنے پر رات دو بجے دھاوا بول دیا، دھرنے میں شریک ایک سو دو سرکاری ملازمین کو گرفتار کر لیاگیا، انکا ذاتی سامان اور دھرنے کا سارا سامان قبضہ میں کر لیاگیا، ان کے خلاف دو ایف آئی آرز درج کر دی گئیں ایک میں 53 اور دوسری میں 49 کے نام درج ہیں۔پولیس تشدد کی اطلاع ملتے ہی تمام سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں بند کردی گئیں ، اساتذہ نے احتجاج شروع کردیا، جنوبی پنجاب میں اساتذہ نے مکمل تدریسی بائیکاٹ کیا،اساتذہ کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت ظالمانہ ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے، اس لئے اپنے کسی مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، یہ گرفتاریاں ہمارا راستہ نہیں روک سکتیں ، دھرناجاری رکھنے کیلئے اساتذہ کے دوسری کھیپ لاہور پہنچ گئی ہے۔
سوشل میڈیا خاص طور فیس بک پر ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو کہ بھارتی ویڈیو ہے جس میں ٹیچر بلیک بورڈپر لکھ بتا رہی ہے کہ سرکارنے اخبار میں اشتہار دیا ہے ،جس میں گورنمنٹ نے کہا ہے کہ ہریانہ میں جس کی آمدنی ایک لاکھ اسی ہزار سے کم ہے ،ان کے بچے اگر گورنمنٹ سکول میں جاتے ہیں تو انہیں 500روپے ماہانہ فیس دینا ہوگی اور اگر انہیں والدین کے بچے پرائیویٹ سکول میں جاتے ہیں توانہیں سرکار 1100روپے دیگی،اب بات یہ ہے کہ جس کا بچہ سرکاری سکول میں جائے گا وہ 500روپے فیس دے گا،اگراس کابچہ پرائیویٹ سکول میں جائے گا تو اسے سرکار سے 1100روپے ملیں گے ،تو صاف ظاہر ہے وہ اپنے گھر سے پیسے کیوں دے گا ایک سرکاری اور اوپر سے فیس کے پیسے بھی جیب سے دینے پڑیں توعام آدمی اپنے بچے کو سرکاری سکول کے بجائے پرائیویٹ سکول میں ہی بھیجے گا کیونکہ وہاں بھیجنے سے سرکار پیسے دے گی
کبھی کسی نے سوچا ہے کہ سرکار کیا چال چل رہی ہے، آپ کے بچے کی فیس ہم دیں گے ،آپ کو چنتا کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، آپ سوچیں گے اگرسرکاری میں پڑھایا تو 500روپے دینے پڑیں گے، اگرآپ کے دو بچے سکول پڑھتے ہیں توآپ سوچیں گے چلو 1000روپے تو بچتے ہیں اس سے تو بہتر ہے کہ پرائیویٹ سکول بھیجوں اور ان کی فیس بھی سرکار دے گی،ایک دوسال بعدکیا ہوگا سرکاری سکول خالی ہوجائیں اور ختم ہوجائیں گے ،بلڈنگ خالی ،ایڈمشن زیرو،ایک سال ،دوسال پھرپانچ سال تک ایڈمشن زیرو زیرو،پھر سرکار دکھائے گی یہ سرکاری سکول تو گھاٹے کاسودا ہے ،سرکاری سکول بند پڑے ہیں ،ہم مفت میں ٹیچرزکوتنخواہیں دے رہے ہیں ،چپڑاسی رکھے ہوئے ہیں ،باقی ملازمین ہیں ،اب ان سکولوں میں کوئی بچہ پڑھنے کیلئے بھی نہیں آتا ہے تو اب اس پراپرٹی کو بیچنا شروع کردو،
سرکاری پراپرٹی ہے ہرگاؤں میں ہرشہر میں سرکاری سکول موجود ہیں ،آپ سوچ رہے ہوں گے کتنے سرکاری سکول ہوں گے،تمام سرکاری سکول کی قیمت لگائی جائے گی ،اب جو پراپرٹی مہنگی ہوگی وہ کوئی عام آدمی تو نہیں خرید سکے گا،اب پورے ملک کے سکولوں کوکون خریدے گا،جس کے پاس اتنا پیسہ ہوگا تو وہ ہیں دو امیر ترین شخص مکیش امبانی اور گوتم اڈانی،یہ سرکار سے سکول لے لیں گے اور کہیں گے کہ اتنے کروڑ روپے آپ کودے دیتے ہیں ہم ان سکولوں کو ڈیویلپ کرلیں گے
پھر سرکارایک دوسال بعد کہے گی کہ ہم بہت خسارے میں جارہے ہیں ہمارے پاس آپ کے بچے کی فیس 1100روپے دینے کے پیسے نہیں ہیں ،اب یہاں پر غریب آدمی پھنس گیا کیونکہ اس کا بچہ تو ساتویں کلاس میں پہنچ چکا ہوگا،سرکارنے 5،6 سال پیسہ دیا ،اب انکار کردیا گیااورکہا کہ ہم نے پیسے نہیں دینے، پڑھانا ہے تو پڑھا لو ،نہیں پڑھانا تو ان پڑھ رہنے دو،اگروہ بندہ واپس سرکاری سکول کی طرف جاتا ہے وہاں تو پہلے ہی تالا لگا ہوتا ہے اور بورڈبھی بدلا ہواہے ،بورڈ کس کا ہے مکیش امبانی یا گوتم اڈانی کا ہے کیونکہ وہ اب سرکاری سکول نہیں رہا وہ امبانی ،ایڈانی پرائیویٹ سکول ہے
جب فیس کا پتہ کرے گا تو وہ کہے گا میں تو اتنی فیس نہیں دے سکتا ،اب ہوا کیا سرکاری سکول بھی ختم اور پرائیویٹ کی اوقات نہیں ہے ،اب سکول میں بچے صرف ان کے لوگوں کے پڑھیں گے جن کے پاس پیسے ہوں گے،اس طرح حکومت عوام کودی جانیوالی تمام سہولتیں واپس لے لیگی اور سب کچھ پرائیویٹ کردیا جائے گا جب تک عوام کی آنکھ کھلے گی اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی-
اب دیکھتے ہیں پاکستان اور خاص طور پنجاب میں سرکاری سکولوں کو کیسے ناکام کیا گیا اور سکول بند کیوں ہونے لگے ،پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن (PEF) کا قیام 1991 میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے ایکٹ کے ذریعے ہوا تھا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کے ذریعہ معیاری تعلیم کے فروغ کے لئے، تکنیکی اور مالی مدد کے ذریعے نجی شعبے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی اور حمایت کریں اور غریبوں کو سستی لاگت پر وسیع تر تعلیمی مواقع دے کر ترقی کریں۔ فاؤنڈیشن کے وژن، مشن اور مقاصد کو بی او ڈی نے منظور کرلیا۔ پی ای ایف نے حیرت انگیز اقدامات متعارف کروائے اور انہیں چوہدری پرویز الٰہی نے بطور وزیر اعلی پنجاب اور مسٹر سلمان صدیق چیف سیکرٹری پنجاب کی مکمل حمایت حاصل رہی
جس خدشے کااظہارانڈین مووی میں کیا جارہا ہے وہ خدشہ پاکستان میں حقیقت بن کر اژدھا کی طرح پھن پھیلائے سامنے آن کھڑا ہے ،سب سے پہلے پرائیویٹ سکولوں کو خود رو جھاڑیوں کی طرح اُگایا گیا۔ پہلے تو بہت ہی خوبصور ت نظم وضبط دکھایا گیا مگرآج تک ان سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کو دیکھا بھی نہیں گیا جہاں مڈل اور میٹرک پاس اساتذہ غریب والدین کے بچوں کامستقبل تاریک کرنے میں سب سے آگے ہیں ،ان خود روPEFپارٹنر سکولوں کے کھلنے کی وجہ سے سرکاری سکولوں میں داخلہ اور بچوں کی تعداد کم ہونے لگی ،
سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی طرف سے 1991 میں دئے گئے تحفے PEF کے نتائج کھل کر سامنے آچکے ہیں ،سرکاری سکول بند ہوچکے ہیں وہی انڈین مووی والافارمولا اپلائی کردیا گیا ہے ،سرکاری سکولوں میں حاضری زیرو،طلباء کے نئے داخلے زیرو،اب کہا یہ جانے لگا کہ جب یہ اساتذہ سکولوں میں پڑھاتے نہیں ہیں تو ہم نے اس فوج ظفرموج کاکیا کرنا ہے ،ہم ان کو مفت تنخواہیں کیوں دیں ،اور سکولوں کی عمارتیں اور پراپرٹی بیکارپڑی ہیں جن کی دیکھ بھال کیلئے بھی کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے
کچھ سال قبل پنجاب کے سرکاری سکولوں کو پیف پارٹنرکے نام پر بیچا گیا تھا، اس وقت سب خواب خرگوش میں مگن رہے تب کسی نے کوئی آواز نہ اٹھائی ،اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے گورنمنٹ نے سب سے پہلے لیو انکیشمنٹ کے خاتمہ کااعلان کیا جس پر پنجاب بھر کے ملازمین نے احتجاج کیا ،جھوٹے وعدوں کے ذریعے اس احتجاج کوختم کرایاگیاتھالیکن اس قانون کی واپسی کانوٹیفکیشن جاری نہ کیا گیا جس پر ملازمین پھر سڑکوں پر آگئے اوراس دوران تمام سرکاری سکولوں کوبیچنے کااعلان کردیاگیا،اس اعلان کے ساتھ ہی اساتذہ کوجھٹکا لگاتواساتذہ بھی پنجاب کے دیگرملازمین کے ساتھ احتجاج میں شامل ہوگئے اور اعلان کیا ہے کہ سرکاری سکولوں کو کسی صورت نیلام نہیں ہونے دیں گے۔
اب اگرغورکیاجائے تو اس سارے فساد کی جڑ چوہدری پرویزالٰہی ہیں جو 1991میں وزیراعلیٰ پنجاب تھے اور ر مسٹر سلمان صدیق چیف سیکرٹری پنجاب کی طرف لگایا PEFسکولوں کاپودا کتناخطرناک درخت بن چکا ہے جو تمام سرکاری سکولوں کو کھا گیا اور باقی بچ جانے والے سکولوں تباہ وبرباد کردیا ہے ،سرکاری سکولوں کی تباہی و بربادی کرنے کے بعد پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے اپنےPEFپارٹنرسکولوں کو بھی آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں اور ان کے فنڈزبند کرنا شروع کردئے ہیں ،سرکاری سکول توپہلے ہی غریب کے بچوں کیلئے بند ہوچکے ہیں اور اب PEF سکولوں میں بھی غریب کے بچوں کیلئے مفت تعلیم کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند کئے جارہے ہیں ۔
اب پاکستان میں بھی مکیش امبانی یا گوتم اڈانی کاکوئی بھائی ملک ریاض یاکوئی یا کسی اور بندے کے روپ میں ان سرکاری سکولوں پرقبضہ جمانے کیلئے تیار بیٹھاہے ،اگرتمام سرکاری سکول فروخت ہوگئے تو غریب والدین کے بچوں کیلئے تعلیم کے دروزے ہمیشہ کیلئے بند ہوجائیں گے ۔اب عوام کو بھی چاہئے اساتذہ کے دست بازوبنیں تاکہ حکومت پنجاب سرکاری سکول بیچنے سے باز رہے اورغریب والدین کے بچے بھی تعلیم حاصل کرکے اپنا مستقبل روشن کرسکیں ،اگراب بھی عوام کی آنکھیں نہ کھلیں توان کے بچوں کے تاریک ہوتے مستقبل کوکوئی روک نہیں پائے گا۔