سال دوہزار چودہ وہ سال ہے جب پاکستان میں دھرنوں اور لانگ مارچ اور لاک ڈاؤنز کی سیاست کا باقاعدہ آغاز ہوا اور تب سےآج کے دن تک ہم اس منحوس طرز سیاست سے نبردآزما ہیں۔ ذرا ذرا سی باتوں کو پکڑ کر جلا دوں گا, مار دوں گا, بھگادوں گا وغیرہ وغیرہ کا شورو غل بلند کرکے حکومتوں اور ریاستوں کے کیے کی سزا عوام کو دینا کہاں کی سیاست اور جمہوریت ہے؟
خان صاحب کے اچھے اورکرزمیٹک فیصلوں اور کاموں کی سراہنا کرنا اچھی بات ہےلیکن یاد رہے خان صاحب بھی ایک عوامی لیڈر ہیں جنہیں اپنے برے فیصلوں اور کاموں کا جواب دینے کے لیے عوام کی عدا لت میں آنا ہی پڑے گا۔
سال دوہزار چودہ کا دھرنا ہمیں 547 ارب میں پڑا تھا اور ملا کیا۔۔۔ گھنٹا؟
ایک بڑا قومی سانحہ دیکھا اور تب اس دھرنے کا اختتام ہوا لیکن دھرنا اور لانگ مارچ سیاست نے جو پنجے تب سے اس ملک پر گاڑے ہیں اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ تب سےآج تک ناصرف تحریک انصاف بلکہ تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے دھرنا اور لانگ مارچ سیاست کو ایک طلسماتی منتر سمجھ لیا ہے کہ جب جب حکومت اور ریاست کو انڈر پریشر لانا ہے تو عوام کا جینا دوبھرکردو اور ملکی معیشت کا بیڑا غرق کردو۔
اب کل توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کو الیکشن کمیشن کے چار رکنی بینچ نے موجودہ مدت کےلیے نااہل قرار دے دیا تو آدھے گھنٹے کے اندر اندر پورے ملک کی عام شاہراؤں اور شہروں کے داخلی و خارجی راستوں پر تحریک انصاف کے عام سپورٹرز نےاحتجاج کے نام پر جو ہلڑ باز اور طوفان بدتمیزی برپاکیا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اور اگر تحریک انصاف نے یہی سلسلہ آگے بھی جاری رکھا تو یقینا اس بار ملک 547 ارب کو بھول جائے گا کیونکہ اس دفعہ بات ملک کے ڈیفالٹ پر ہی ختم ہوگی کیونکہ ہماری حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ ہم اب ہلکا سا بھی جھٹکا برداشت نہیں کرسکتے۔
دھرنا اور لانگ مارچ کی سیاست سے آج تک کیا فائدہ حاصل ہوا ہے؟
سوائے توڑ پھوڑ, گالم گلوچ, تصادم اور ملکی معشیت کو نقصان پہنچانے کے اس لغو انداز سیاست نےکیا دیا ہے؟
اور کل ہی ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ایک اکثریتی سیاسی پارٹی کے کارکنان نے ریڈلائن لائن کراس کی اور فوج کے چیف جناب جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف بھی بیہودہ نعرےبازی کی اور ملک کا تماشہ بنانے کا بھارتی میڈیا کو ایک اور سنہری موقع دیا۔
بھارت جو کہ ہمارا ازلی دشمن ہے اس کے پاکستان اور اسکی عوام کے خلاف تین بنیادی مشن یا ایجنڈے تھے جو کہ اب تقریباً پورے ہوچکے بیشک ملک ایف اےٹی ایف کی گرےلسٹ سےنکل چکا ہے۔
1-پاکستانی معشیت کا بیڑا غرق کرنا۔
2-افواج پاکستان اور عوام کی محبت ختم کرنا۔
3-دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنا۔
کیا بھارت کے یہ تین مشن مکمل نہیں ہوگئے؟
اس کا سہرا بالترتیب آصف ذرداری, نواز شریف, مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے سربندھنا چاہیے کہ ان چار نفوس نے عرصہ بیس بائیس سال میں پاکستان اور اس کی عوام کو بھارت اور اقوام عالم کے سامنےپلیٹ میں رکھ کر پیش کردیا کہ لو بھئی جو کرنا ہے کرلو۔
خیر ملک اس طرح کی سیاست کا متحمل نہیں لیکن ہماری مقتدرہ و سیاسی اشرافیہ کو یہ بات اب بھی سمجھ نہیں آرہی۔ اللہ ہی پاکستان کی حفاظت کرے ورنہ ہم نےتو کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ایک ایسے وقت میں جب ملکی معیشت تنزلی کی جانب گامزن ہے، سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں قیامت خیز تباہی ہوئی، لوگ پینے کے پانی کو ترس گئے، پٹرول کی قیمت میں مسلسل اضافے نے مہنگائی کی قدر اتنی بڑھا دی کہ غریب کے لئے دو وقت کی روٹی کھانا محال ہو چکا ایسے میں تحریک انصاف کی جانب سے لانگ مارچ ، احتجاج کی کال ملکی معیشت کو مزید زمین بوس کرے گی، یہ وقت احتجاج کا نہیں بلکہ میثاق معیشت کا ہے،پاکستان کوبچانے کا ہے، پاکستان کی سیاسی صورتحال مستحکم ہو گی تو معیشت بھی مستحکم ہو گی لیکن یوں لگتا ہے کہ عمران خان کا ایجنڈہ ہی یہی ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر عدم استحکام سے دو چار کیا جائے