"تھیلیسمیا کے مریض بچے اور ہمارے فرائض” تحریر: غنی محمود قصوری

0
25

اسلام و ماں باپ کے بعد سب سے بڑی نعمت تندرستی ہے انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہوتا رہتا ہے جس سے اللہ رب العزت بندے کے صبر کو آزماتے ہیں اور اس کے بدلے میں آخرت کی پریشانیوں سے بھی نجات دیتے ہیں یوں تو ازل سے ہی کئی بیماریاں ہیں اور ہر انسان کسی نا کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے مگر ایک تھیلیسمیا نامی بیماری ایسی بھی ہے جو کہ ماں باپ کے جینیاتی خرابی کے باعث اولاد میں منتقل ہوتی ہے اللہ رب العزت ہر کسی کے بچوں کو اس موذی بیماری سے بچائے یہ بیماری ایسی ہے کہ ہر ہفتے خون کی بوتل کے علاوہ بطور علاج معالجہ ہزاروں روپیہ بھی خرچ ہوتے ہیں
عالمی یوم تھیلیسمیا 8 مئی کو پوری دنیا کے ساتھ پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے
ایک اندازے کے مطابق سنہ 2000 میں پاکستان میں تھیلیسمیا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 60 ہزار تھی جو اب بڑھ کر 1 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور ہر سال تقریبا 6 ہزار نئے کیس سامنے آ رہے ہیں جو کہ بہت تشویشناک بات ہے اس سے بچاءو کیلئے حمل شروع ہوتے ہی ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں جوکہ تقریبا ہر سرکاری ہسپتال سے با آسانی ہو جاتے ہیں لہذہ ہمیں لوگوں میں اس بیماری سے بچاءو کے متعلق شعور و آگاہی پیدا کرنی ہوگی وہ اجتماعی طور پر کریں یا انفرادی طور مگر کریں ضرور مگر بہتر ہے کہ اجتماعی طور پر ہو تا کہ ایک ٹیم بن کر زیادہ لوگوں تک آواز با آسانی پہنچائی جا سکے
اس بیماری میں مبتلا بچے کا خون بہت تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتا ہے جسے کم سے کم ایک ہفتہ اور زیادہ سے زیادہ 20 دن بعد خون کی بوتل کی ضرورت ہوتی ہے اور بار بار خون کی تبدیلی کی بدولت ان بچوں کے دل و جگر بہت زیادہ کمزور ہو جاتے ہیں جس کی بدولت ان بچوں کی زندگی کی مہلت 20 سے 25 سال تک ہی ہے وہ بھی بہت کم بچوں کی ورنہ زیادہ تر 13 سے 17 سال تک ہی یہ بچے دنیا میں رہ پاتے ہیں اس کے بعد یہ مریض و مہمان بچے ہم سے جدا ہو کر خالق حقیقی کے پاس پہنچ جاتے ہیں
تھیلیسمیا میں زیادہ تر مریضوں کی تلی بڑھ جاتی ہے جس پر آپریشن کرنا لازمی ہوتا ہے اس آپریشن پر لاکھوں روپیہ خرچا آتا ہے جبکہ بار بار خون منتقلی کی بدولت ان کی خاص دوائی Desferrioxamicin کی ضرورت پڑتی رہتی ہے جس کی موجودہ قیمت 5 ہزار روپیہ ہے جو کہ ہر غریب انسان کے بس کی بات نہیں والدین کیلئے دوائی کے علاوہ سب سے بڑی پریشانی خون کا بندوبست کرنا ہے جو کہ ایک کھٹن مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ لوگ بار بار مالی مدد تو کر دیتے ہیں مگر خون ہر بار ہر بندہ نہیں دے سکتا ایسے میں کئی واقعات دیکھنے کو ملے کے مجبور و لاچار ماں باپ تنگ آ کر اپنے لخت جگروں کو ہسپتالوں و این جی اوز کے پاس چھوڑ کر بھاگ گئے اور کچھ کم عمر تھیلیسمیا کے مریض بچے محنت مشقت کرکے بیماری کیساتھ لڑتے ہوئے اپنا علاج معالجہ کرواتے ہیں
ایسے میں ہم صحت مند افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان بچوں کیلئے خون کا بندوبست کریں تاکہ کوئی مجبور و لاچار ماں باپ اپنے لخت جگر کو یوں مرنے کیلئے چھوڑ کر نا جائے مذید ان بچوں کیلئے ہر شہر کی سطح پر این جی اوز قائم کی جائیں جو کہ ان مریضوں کیلئے خون کے عطیات جمع کرنے کیساتھ علاج معالجے اور ان کی ضروریات زندگی کیلیے رقم بھی جمع کریں تاکہ اللہ رب العزت کے پاس پہنچ کر یہ بچے ہمارا گریبان نا پکڑ سکیں کہ الہی میں ان صحت و توانا لوگوں میں چند سال کیلئے آیا تھا مگر یہ مجھے اپنا خون عطیہ نہیں کرتے تھے اور مجھے کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ علاج معالجے کیلئے پیسوں کی ضرورت تھی مگر یہ پیسوں والے لوگ مجھ چند سالوں کے مہمان کو پیسے دینے سے انکاری تھے اور مجھے اپنے علاج معالجے کیلئے بیماری کیساتھ محنت و مشقت بھی کرنی پڑتی تھی
پاکستان میں اس وقت سینکڑوں این جی اوز اور سرکاری و نجی ہسپتال ان کم عمر مہمان بچوں کی سانسیں بحال رکھنے کی جدوجہد میں پیش پیش ہیں تو اپنے خون و مال سے ان این جی اوز و معالج خانوں کی مدد کرکے ان مہمان بچوں کی سانسیں بحال رکھنے میں مدد کیجئے تاکہ کوئی غریب ماں باپ خون و پیسے کے نا ہونے کی بدولت اپنے لخت جگر کو مرنے کیلئے اکیلا نا چھوڑ دے اور اس مہمان مریض کو اپنے علاج معالجے کیلئے غربت کے باعث بیماری کیساتھ محنت و مشقت نا کرنا پڑے کیونکہ فرمان باری تعالی ہے ،جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا
تو آگے بڑھیں جب تک ان مہمان بچوں کی سانسیں بحال ہیں تب تک ان کو عام بچوں کی طرح زندہ رہنے کا موقع دیجئے

Leave a reply