ٹھٹھہ: وزیراعلیٰ سندھ کا کے بی فیڈر منصوبے کا دورہ، کراچی کو اضافی پانی کی فراہمی کا اعلان

ٹھٹھہ،باغی ٹی وی (نامہ نگاربلاول سموں کی رپورٹ )وزیراعلیٰ سندھ کا کے بی فیڈر منصوبے کا دورہ، کراچی کو اضافی پانی کی فراہمی کا اعلان

تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صدر آصف علی زرداری نے واضح موقف دیا ہے کہ سندھ کے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیں گے، کالاباغ ڈیم کی طرح کینالوں کے بھی مخالف ہیں۔ دریائے سندھ سے نکلنے والے کینالوں کا معاملہ جب تک کسی فورم پر نہیں آئے گا، ختم نہیں ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کلری بگھار فیڈر کے دورے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزراء سعید غنی، جام خان شورو، سید ریاض حسین شاہ شیرازی، ایم این اے سید ایاز علی شاہ شیرازی، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب، کمشنر حیدرآباد بلال احمد میمن، ڈی آئی جی طارق رزاق دھاریجو، ڈپٹی کمشنر منور عباس سومرو، ایس ایس پی ڈاکٹر محمد عمران خان و دیگر بھی موجود تھے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ میں ترقی کا سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔ نئے سال کے حوالے سے عوام سے درخواست کروں گا کہ ہر شخص اپنے حصے کا کام کرے۔ سندھ حکومت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں دن رات کوشاں رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ کے بی فیڈر کی لائننگ کے منصوبے سے کراچی کو یومیہ 7600 کیوسک سے بڑھ کر 9800 کیوسک پانی ملے گا۔ سندھ حکومت کراچی کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ کلری بگھار فیڈر اپر سسٹم اور کینجھر جھیل کی بہتری پر کام جاری ہے۔ کے بی فیڈر اپر فیز ون کی کناروں کی پختگی اور لائننگ کا کام ہو رہا ہے۔ لائننگ کی پختگی کا منصوبہ ایکنک نے 19 جولائی 2023 کو منظور کیا۔ کے بی فیڈر کے لیے 39,942.559 ملین روپے منظور ہوئے، جن میں پچاس فیصد وزارتِ آبی وسائل اور پچاس فیصد حکومتِ سندھ خرچ کرے گی۔ کے بی فیڈر کی لائننگ سے 510 کیوسک پانی کے اخراج کو بچایا جا سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ پانی کے فور پروجیکٹ فیز-I کی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔ کے بی فیڈر کی لائننگ کی پختگی کا منصوبہ چار سال میں مکمل ہوگا۔ کلری بگھار فیڈر کی گنجائش میں اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ وفاق اور سندھ کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ اس سال وفاق نے کم پیسے دیے ہیں۔ اس سال منصوبے کا 40 فیصد حصہ مکمل کر لیں گے جبکہ کے بی فیڈر کا منصوبہ اگلے سال مکمل ہو جائے گا۔ صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو منصوبے پر کام کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔ کراچی کو پانی ملنے کی وجہ سے کسی علاقے کا پانی کم نہیں ہوگا۔ کے بی فیڈر کی لائننگ سمیت نکاسی آب کا سسٹم بھی بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کینجھر جھیل کی فلنگ لیول کو آر ایل 53.50 سے آر ایل 56.00 بڑھا کر ذخیرہ کو 0.38 سے 0.42 ملین ایکڑ فٹ تک بڑھایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ آبپاشی کے بی فیڈر کے ذریعے کراچی کے لیے 260 ایم جی ڈی پانی فراہم کرنے کے قابل ہوگا۔ 22.734 کلومیٹر کے بی فیڈر کی لائننگ پختگی کے کام کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 6 کلومیٹر طویل آر ڈی 0 سے 65 تک لائننگ پختگی کے کام پر 103 ملین روپے جاری ہونے ہیں، جبکہ 7.62 کلومیٹر طویل آر ڈی 65 سے 130 تک 1170 ملین روپے کی دس فیصد ادائیگی ہو چکی ہے۔ 9.144 کلومیٹر طویل آر ڈی 130 سے 189 تک 1182 ملین روپے کی دس فیصد ادائیگی کر دی گئی ہے۔

اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پارا چنار میں انسانی المیہ ہو رہا ہے، اس پر ہمیں افسوس ہے۔ حکومت سندھ نے گورنر خیبرپختونخوا کی درخواست پر ہلال احمر کے ذریعے امداد بھیجی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پرامن دھرنوں کے بالکل خلاف نہیں ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم سے مذاکرات جاری ہیں۔ دھرنے ختم کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دھرنے والوں کو ایک جگہ پر دھرنا دینے کی پیشکش کی ہے۔ 8 جگہوں سے دھرنے ختم کرائے گئے ہیں، جبکہ 4 جگہوں پر اب بھی جاری ہیں، جو بات چیت یا ایکشن سے ختم کر دیے جائیں گے۔ دھرنوں کے خلاف ایکشن بھی لیں گے، جس سے کچھ لوگ ناراض بھی ہو سکتے ہیں۔

سید مراد علی شاہ نے کہا کہ پارا چنار کے مسئلے کا حل وہیں ہوگا، ہمارے پاس نہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ بی آر ٹی بسوں کو پورے سندھ تک توسیع دیں گے۔ پہلے ایس آر ٹی سی ہوتی تھی، اب بھی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ملیر ایکسپریس وے کا اگلا مرحلہ بھی 2025 میں مکمل کر لیں گے۔ کراچی سے باہر جانے والوں کا سفر ایک گھنٹہ کم ہو جائے گا۔

قبل ازیں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کے بی فیڈر کی لائننگ پروجیکٹ کا دورہ کرکے کراچی کے لیے پانی کے منصوبے کے بی فیڈر پروجیکٹ پر اہم پیشرفت کا معائنہ کیا۔ اس موقع پر سیکریٹری آبپاشی ظریف کھیڑو نے پروجیکٹ کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ کو تفصیلی بریفنگ بھی دی۔

Comments are closed.