پراکسی جنگوں کا فن

art

پراکسی جنگوں پر بڑھتے ہوئے انحصار نے بڑے پیمانے پر تشویش پیدا کی ہے، خاص طور پر جب مغربی ممالک داعش کے خلاف جنگ میں براہِ راست مداخلت کے بجائے معتدل شامی باغیوں اور کرد پیشمرگہ کو ہتھیار، فنڈز، اور وسائل فراہم کر رہے ہیں۔ اسی طرح، 2014 میں روس کی جانب سے کریمیا کے الحاق نے مغربی رہنماؤں کو پریشان کیا، جنہیں خدشہ تھا کہ ماسکو علاقائی بالادستی حاصل کرنے کے لیے چالاک مگر جارحانہ حکمت عملی اختیار کر رہا ہے۔ مشرقی یوکرین میں اہم علاقوں پر قبضہ کرنے والے روسی "رضاکار”، جن کے بارے میں صدر پیوٹن کا دعویٰ تھا کہ وہ ریاست سے غیر منسلک ہیں، ان خدشات کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔

یہ حکمت عملی سن زو کی کتاب دی آرٹ آف وار کے اصولوں کی عکاسی کرتی ہے، جو براہِ راست جنگ کے بجائے کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر جیتنے کی وکالت کرتی ہے۔ ناقدین اکثر بالواسطہ جنگ کو محض تنازعے سے گریز کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن اسے "جنگ کی منتقلی” کے طور پر بہتر سمجھا جا سکتا ہے، جہاں اثر و رسوخ بالواسطہ ذرائع سے قائم کیا جاتا ہے۔ 1929 میں لڈیل ہارٹ نے اس تصور کو متعارف کرایا اور اپنی کتاب اسٹریٹجی: این ان ڈائریکٹ اپروچ میں اسے تفصیل سے بیان کیا، جو مغرب میں عسکری نظریے کا ایک اہم موڑ تھا، جیسا کہ مؤرخ برائن ہولڈن ریڈ نے کہا۔

پراکسی جنگوں کے ذریعے ایک ملک اپنے مفادات کا حصول بالواسطہ طور پر کر سکتا ہے، مثلاً ملیشیا یا اتحادی قومی افواج کو ہتھیار، فنڈنگ، اور حمایت فراہم کر کے، بغیر اپنی افواج کو میدان میں اتارے۔ یہ طریقہ کار روایتی تنازعوں جیسے بغاوت سے آگے بڑھ کر ایک ایسے تعلقات اور حکمت عملیوں کے جال کو جنم دیتا ہے جو اعلانیہ اور خفیہ دونوں ہو سکتے ہیں۔ پراکسی تنازعات عموماً ایسے ماحول میں ہوتے ہیں جہاں ریاستیں اور غیر ریاستی عناصر اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں بعض اوقات تو سائبر اسپیس کے ذریعے بھی ایسا کیا جاتا ہے

تاریخی طور پر، قوموں نے مقامی بحرانوں، جیسے خانہ جنگیوں، سے فائدہ اٹھا کر،اکثر مخالف نظریات یا طاقتوں کو قابو کرنے کے لیے بڑے جغرافیائی سیاسی تغیرات کو ہوا دی ہے، کئی معاملات میں، پراکسی قوتیں ان ممالک کے لیے ایک کشش کا باعث بنتی ہیں جو فوجی بھرتی کے مسائل اور محدود دفاعی بجٹ کا سامنا کرتے ہیں۔ فوجی کارروائیوں کو آؤٹ سورس کرنے سے یہ ریاستیں بغیر کسی براہِ راست موجودگی کے اپنی طاقت کا اظہار کر سکتی ہیں۔

امریکہ، جس نے وار آن ٹیرر کی طویل مدتی لاگت سے سبق حاصل کیا ہے، بڑے پیمانے پر، حکومت کی تبدیلی کی جنگوں میں ملوث ہونے سے گریز کرتا ہے اور پراکسی جنگوں کو ترجیح دیتا ہے۔ اس حکمت عملی سے امریکہ کی سیاسی اور عسکری نمائش کم ہو جاتی ہے اور مشرق وسطیٰ میں ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچا جاتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ، جو ایک نئی تنہائی پسند پالیسی کی عکاس ہے، نے وسیع فوجی وعدوں سے گریز کیا، اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ اپنی خارجہ مفادات کے تحفظ کے لیے پراکسی کو ایک آلہ کے طور پر زیادہ استعمال کرے گا یا نہیں۔

چین اور روس بھی پراکسی جنگوں کے مستقبل کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چین، اپنی عالمی طاقت کے ابھار کے ساتھ، اس بات کا فیصلہ کرنے کا سامنا کرتا ہے کہ تجارت کے تعلقات کو نقصان پہنچائے بغیر کس طرح اثر و رسوخ کا اظہار کرے۔ روس کا نیٹو کی سرحدوں کے قریب، جیسے کریمیا میں، پراکسیوں پر انحصار، مغربی پالیسی کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے کیونکہ بالواسطہ جارحیت کے جواب دینا پیچیدہ ہو جاتا ہے۔

ہم ایران اور سعودی عرب کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے، جو اپنے اپنے برانڈ کے اسلام کے لیے عالمی اثر و رسوخ حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔

مجموعی طور پر، یہ پیش رفت ایک ایسی دنیا کی نشاندہی کرتی ہیں جہاں بالواسطہ، کثیر الجہتی تنازعات زیادہ عام ہوتے جا رہے ہیں، جس سے زیادہ پیچیدہ اور غیر یقینی سلامتی کے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ دنیا بدل چکی ہے، اور یہ تبدیلی بہتری کے لیے نہیں ہے

Comments are closed.