ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا زہر، عدم برداشت
از قلم: جواد اکبر بھٹی (چراغِ آگہی)

ہمارا معاشرہ ایک کرب ناک دور سے گزر رہا ہے، جہاں عدم برداشت ہماری اجتماعی زندگی میں زہر کی طرح سرایت کر چکی ہے۔ یہ صرف ایک نظری بحث نہیں بلکہ ہمارے سامنے رونما ہونے والے واقعات اس حقیقت کو کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں۔ حال ہی میں شرقپور میں ہونے والا پرتشدد واقعہ ہو یا اس سے پہلے راؤنڈ والا سانحہ، جس میں معمولی بات پر دو بھائیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، یہ سب ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ آخر ہم کس سمت جا رہے ہیں؟

دین کی تعلیمات اور ہمارا عمل
ہمارا دینِ اسلام ہمیں صبر، درگزر اور تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ”
(آل عمران: 134)

یعنی، "اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو غصہ پی جاتے ہیں، دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں اور نیکی کرتے ہیں۔”

اسی طرح رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: "طاقتور وہ نہیں جو کشتی میں دوسرے کو گرا دے، بلکہ اصل طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو پا لے۔”

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے دین کی اس بنیادی تعلیم کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔

عدم برداشت کے اثرات
عدم برداشت نے ہمارے گھروں، گلیوں اور اداروں کو بداعتمادی اور خوف میں لپیٹ لیا ہے۔ اختلافِ رائے اب برداشت نہیں کیا جاتا؛ معمولی تنازع لمحوں میں خونی جھگڑے میں بدل جاتا ہے۔ رشتے کمزور پڑ گئے ہیں اور اجتماعی زندگی خوف کی فضا میں جکڑ چکی ہے۔

ہمارے ملک کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اس عدم برداشت کا سب سے بڑا نقصان ہماری نوجوان نسل اٹھا رہی ہے۔ وہ دیکھ رہی ہے کہ مسئلے کا حل دلیل یا مکالمہ نہیں بلکہ طاقت اور تشدد ہے۔ جب بچہ اپنے اردگرد ہر جگہ غصہ، جھگڑا اور تشدد دیکھے گا تو اس کے ذہن میں یہی بیٹھے گا کہ یہی اصل طرزِ زندگی ہے۔ یہ وہ خطرہ ہے جو ہمارے مستقبل کو اندھیروں میں دھکیل رہا ہے۔

حل اور عملی اقدامات
اب وقت ہے کہ ہم سب اجتماعی طور پر اس ناسور کے خلاف کھڑے ہوں اور اس کا مقابلہ کریں۔

تعلیمی اداروں میں اخلاقیات اور رواداری کے مضامین کو اہمیت دی جائے۔

علماء کرام اپنے خطبات میں لوگوں کو بھائی چارے اور درگزر کا درس دیں۔

میڈیا ایسے پروگرامز پیش کرے جو معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیں۔

راقم الحروف، جواد اکبر بھٹی، ہمیشہ اس موضوع کو ترجیحی بنیاد پر فکر مند رہتا ہے اور ہر محفل میں اس کا ذکر ضرور کرتا ہے۔ کیونکہ یہ مسئلہ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہے۔ اگر ہم نے ابھی بھی عدم برداشت کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات نہ کیے تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

ہمارا عہد
آئیے عہد کریں کہ ہم "برداشت” کو اپنی پہچان بنائیں گے اور اختلاف کو دشمنی نہیں بلکہ مکالمے کے ذریعے سلجھائیں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں امن، استحکام اور ترقی کی منزل تک لے جا سکتا ہے۔

Shares: