اسلام آباد( رپورٹ شہزاد قریشی)ارشد شریف کی افسوسناک مگر پُراسرار موت نے نہ صرف پاکستان کی سیاسی اور صحافتی دنیا میں ایک بھونچال برپا کردیا بلکہ پوری دنیا کی صحافتی اور سیکورٹی تنظیموں میں ہل چل مچا دی اور یہ المناک واقعہ تمام دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔ بلاشبہ ارشد شریف شہید ایک بلند مرتبہ صحافی تھے اور تھوڑے ہی عرصہ میں انہوں نے صف اول کے صحافیوں میں اپنا مقام بنا لیا تھا۔
ملک کونوجوان ہی مشکلات سےنکال سکتےہیں:سراج الحق
ان کا کہنا تھا کہ اُن کی افسوسناک موت کو طویل مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ ملک کی جغرافیائی اور انتظامی سرحدوں سے دور ممتاز صحافی کی پُراسرار موت اور کینیا کی پولیس کو بدلتے موقف نے اس معاملے کو پیچیدہ بنا دیا ہے جبکہ حکومت نے اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی ٹیم کینیا روانہ کردی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو اس قتل کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ حاصل کرنے اور سستی شہرت کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیئے اور ہماری اپنی خفیہ ایجنسیوں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیئے ۔ ہماری ملکی سلامتی کی ایجنسیاں ملک کی بقا ء اور استحکام کی ضامن ہیں ۔
میں آخری دن تک ارشد شریف سے رابطے میں تھا:فیصل واوڈ
شہزاد قریشی کہتےہیں کہ اس طرح غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے اجتناب برتنا چاہیئے اور اعلیٰ سطح تحقیقات کے نتائج اور حقائق کا صبر کے ساتھ انتظارکرنا چاہیئے اس سلسلے میں ہمارے صحافتی حلقوں کا بھی فرض ہے کہ کسی بھی قیمت پر کسی شخص یا سیاسی پارٹی کو ارشد شریف شہید کے خون پر وطن عزیز میں عدم استحکام پیدا کرنے سے روکا جائے۔ملک کے اقتدار اعلیٰ کے دوڑ میں شامل سیاسی رہنمائوں کی جانب سے قومی یکجہتی اور ملکی وحدت کا خیال نہ رکھنا افسوسناک ہے ۔ کیا ہم ایک ایسی قوم بن گئے ہیںجو لاشوں پر سیاست کرتے ہیں۔