شیری رحمان کا کہنا ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کو امن یا استحکام نہ سمجھا جائے، یہ انتہائی نازک ہے اور کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے۔

واشنگٹن میں پاکستانی سفارتی وفد کی پریس کانفرنس کے دوران بھارت جارحیت کے خلاف پاکستان کا مؤقف دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کے لیے قائم کیے گئے سفارتی وفد کی رکن سینیٹر شیری رحمان کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ 87 گھنٹے کی جنگ اصل واقعہ نہیں صرف ٹریلر تھا،جو پاکستان کے مربوط ردعمل کا مظہر تھا، یہ جنگ بھارت کی اس اسٹریٹجی کا حصہ ہے جو خطے کو بالی وڈ طرز کی کشیدگی میں مبتلا رکھنا چاہتی ہے۔

شیری رحمان نےکہا کہ بھارتی میڈیا امن کے بیانیے کو محدود کرکے جنگی جذبات کو فروغ دے رہا ہے، مرکزی بھارتی ٹی وی چینلز لاہور پر قبضے جیسے اشتعال انگیز دعوے کر رہے ہیں، کراچی بندرگاہ پر قبضے اور پاکستان کے نقشے سے مٹ جانے کے بیانات کھلی اشتعال انگیزی ہیں، ایسے بیانیے غیر رسمی سفارتی کوششوں کو ناکام بناتے ہیں اور نفرت کو فروغ دیتے ہیں،جنگ کے بعد بھارتی قیادت خود کو خطرناک وعدوں میں پھنسا چکی جو وہ نبھا نہیں سکتی۔

پنجاب :عیدالاضحیٰ کے دنوں میں ہیٹ ویوکا الرٹ جاری

سینیڑ شیری رحمان نے کہا کہ جنوبی ایشیا کی کشیدگی مزید خطرناک ہے، بھارت نے جنگ کو خوشنما بنا کر پیش کیا، دو جوہری ممالک کے درمیان کسی بھی غلطی کا نتیجہ کروڑوں افراد کے لیے فوری تباہی بن سکتا ہے، جنوبی ایشیا جیسے گنجان اور حساس خطے میں جوہری تصادم ناقابل کنٹرول ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کےآرٹیکل 51 کے تحت دفاع کا مکمل قانونی حق رکھتا ہے، بھارت نے شہری علاقوں کو نشانہ بنا کر جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی، ہم قانون، ضابطوں اور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں، بھارت سے بھی یہی توقع ہے، پاکستان کی جوابی کارروائی صرف عسکر ی اہداف تک محدود اور مکمل طور پر قانونی تھی۔

بھارت نے بارہا ہماری امن پسندی کو کمزوری سمجھا،چیئرمین سینیٹ

شیری رحمان نے کہا کہ دہشتگردی کےT لفظ کے جواب میں کشمیر کا K لفظ ضرور اٹھایا جائے گا یہی بنیادی تنازع ہے، کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے، مسئلہ کشمیر کاحل سنجیدہ اور کثیر الفریقی مذاکراتی فریم ورک میں ممکن ہےلیکن بھارت نہ کثیرالطرفہ عمل کو تسلیم کرتا ہےاور نہ ہی دو طرفہ مذاکرات کو سنجیدگی سےلیتا ہے ، بھارت تیسرے فریق کی ثالثی سے بھی انکاری ہے، جو کسی بھی سنجیدہ عمل کے لیے ضروری ہے امریکا کی مداخلت سے بحران کو قابو میں لانے میں مدد ملی، اس پر ہم امریکی صدر اور وزیر خارجہ کے شکر گزار ہیں، تاہم جنگ بندی کو امن یا استحکام نہ سمجھا جائے، یہ انتہائی نازک ہے اور کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے، بامقصد اوراصولی مذاکراتی عمل نہ ہوا تو یہ ٹریلر جلد ایک عالمی سانحے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

آپریشن سندورکی ناکامی: بھارتی تجزیہ کار وں کی مودی سرکار اور انیل چوہان پر تنقید

Shares: