تمباکو کی لعنت: میرپورخاص کی ہول سیل مارکیٹوں سے عالمی نقصانات تک
تحریر: سید شاہزیب شاہ
تمباکو نوشی نہ صرف ایک انفرادی صحت کا مسئلہ ہے بلکہ یہ ایک قومی بحران بن چکا ہے، جس کا دائرہ اثر مقامی بازاروں سے نکل کر عالمی سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کا ہر شہری روز مرہ کی زندگی میں اس تباہ کن عادت کے اثرات کو کسی نہ کسی شکل میں بھگت رہا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے خاتمے کے لیے حکومتی سطح پر خاطر خواہ اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

میرپورخاص، سندھ کا ایک مشہور شہر، جہاں تمباکو کی ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹیں دن بہ دن فروغ پا رہی ہیں۔ ہلال مارکیٹ جو کہ تمباکو کی خرید و فروخت کا مرکزی مرکز بن چکی ہے، نہ صرف ہول سیل ڈیلروں کا گڑھ ہے بلکہ اس کے اطراف کی چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں بھی تمباکو کی مصنوعات آسانی سے دستیاب ہیں۔ یہی نہیں، پان کے کیبن، جنرل اسٹورز اور عام دکانیں تک اس زہر کو بیچنے میں مصروف ہیں، گویا ہر موڑ پر ایک "قتل گاہ” بنی ہوئی ہے – خاموش، مگر مسلسل۔

یہ صورت حال اس وقت اور زیادہ افسوسناک ہو جاتی ہے جب ہم عالمی ادارہ صحت (WHO) کی حالیہ رپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال سگریٹ نوشی کے باعث 1,64,000 افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ محض ایک عدد نہیں بلکہ ہزاروں خاندانوں کے بکھرنے کی داستان ہے، بچوں کے یتیم ہونے کی حقیقت ہے، اور بیواہوں کی آہوں کا عکس ہے۔

مزید برآں تمباکو نوشی سے قومی خزانے کو سالانہ 700 ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس مالی نقصان کو اگر تعلیم، صحت اور ترقیاتی منصوبوں میں لگایا جائے تو پاکستان کئی حوالوں سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم اپنی ترجیحات میں تمباکو مافیا کو شکست دینے سے قاصر ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے اس المیے پر قابو پانے کے لیے حکومتِ پاکستان کو سفارش کی ہے کہ تمباکو پر بھاری ٹیکس عائد کیا جائے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تمباکو پر ٹیکس میں اضافہ اس کے استعمال کو کم کرنے کا مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔ ایک طرف یہ عوام کو اس مہلک عادت سے روکنے میں مدد دے گا، تو دوسری طرف اس سے حاصل شدہ محصولات کو صحت اور سماجی بہبود کے منصوبوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا حکومت واقعی سنجیدہ ہے؟ کیا ہلال مارکیٹ جیسے مراکز پر چھاپے مار کر، تمباکو کی غیر قانونی فروخت پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ کیا پان کے کیبنز پر کم عمر بچوں کو تمباکو بیچنے پر پابندی واقعی نافذ کی جا سکتی ہے؟ اگر حکومت ان سوالات کے جواب میں عملی اقدامات نہیں کرتی تو اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ تمباکو مافیا حکومت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ صرف اعلانات اور رپورٹوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کیے جائیں۔ میڈیا، سول سوسائٹی، تعلیمی ادارے، اور والدین سب کو مل کر اس معاشرتی بیماری کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔ ہم سب کو مل کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں ایک صحت مند، صاف اور محفوظ پاکستان چاہیے — جہاں زندگی تمباکو کے دھوئیں میں نہ لپٹی ہو۔

Shares: