حاسد و ظالم کا انجام

حاسد و ظالم کا انجام
ازقلم غنی محمود قصوری
ہمارے معاشرے میں حسد ایک ناسور کی شکل اختیار کر گیا ہے،حسد سے مراد کسی بھی شحض کو رب کی طرف سے دی گئی نعمت پر زوال کا طلب کرنا اور یہ سوچنا کہ یہ چیز اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے یہی حسد ہوتا ہے ،دیکھا جائے تو حسد رب کی تقسیم پر اعتراض بھی ہے

حسد وہ راستہ ہے جس کے باعث انسان خود کو سب سے اعلیٰ و ارفع سمجھتا ہے اور دوسروں کو ادنیٰ و کمتر سمجھتا ہے اور دوسروں پر ظلم و ستم کرتا ہے، ان کے خلاف جھوٹی باتیں پھیلاتا ہے اور معاشرے کا امن و سکون برباد کرتا ہے یعنی کہ حاسد ہی ظالم و جابر ہوتا ہے اور تمام برائیوں کی ابتداء حسد سے شروع ہوتی ہے

اس کرہ ارض پر سب سے پہلا قتل قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کا حسد کی بنیاد پر ہی کیا تھا

حسد کی اسلام میں سخت ممانعت ہے اسی لئے ارشاد نبوی ہے کہ
ایک دوسرے کے مقابلے میں بغض نہ رکھو ایک دوسرے کے مقابلے میں حسد نہ کرو ایک دوسرے کے مقابلے میں قطع تعلق نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ
صحیح بخاری 6065

کیونکہ اگر کسی کو کوئی نعمت جیسے کہ حسن ،پیسہ،گھر،گاڑی،اولاد و دیگر آسائشیں ملی ہوئی ہیں تو وہ رب کی طرف سے ہی ہے کیونکہ اگر انسان کے بس میں یہ آسائشیں حاصل کرنا ہوتا تو ہر بندہ ضرور حاصل کرتا مگر یہ تو رب کی عطاء ہے جسے چاہے عطاء کرے اور جسے چاہے محروم رکھے، سو حسد نہیں بلکہ شکر کرنا چائیے کہ الہی میں بھی تیرا بندا ہوں مجھے بھی عطاء کر

اسی حسد بارے ارشاد باری تعالی ہے

أَمْ یحسُدُونَ النَّاسَ عَلی مَا آتَاھمُ اللہ مِن فَضْلِہ ۖ(4-النساء:54 )
بلکہ یہ لوگوں پر اس چیز میں حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے
اور فرمایا :
وَدَّ کثیرٌ مِّنْ أَهْلِ الْکتَابِ لَوْ یرُدُّونَکم مِّن بَعْدِ إِیمَانکمْ کفارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِھم (2-البقرة:109 )

بہت سے اہل کتاب کی خواہش ہے کہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد دوبارہ کافر بنا لیں اپنے نفسوں کے حسد کی وجہ سے

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حاسد کسی کو اللہ کی طرف سے دی گئی نعمت پر بجائے شکر کے اس کی تباہی کا خواہش مند ہوتا ہے اور یہی سب سے بڑی خرابی ہے

میں آج آپکو اپنے دیکھے ہوئے ایک حقیقی حاسد کی کہانی سناتا ہوں تاکہ ہم عبرت حاصل کریں

یہ 2000 ءکی بات ہے اس شحض کے 5 بیٹے تھے اور اس کا کاروبار اچھا تھا نیز اثر و رسوخ والا بھی تھا اور پولیس کے ساتھ اچھے تعلقات بھی تھے
یعنی کہ ہر لحاظ سے کامیاب سمجھا جانے والا شحض تھااس کا مشغلہ تھا علاقے کی بہو بیٹیوں پر جملے کسنااور شرفاء کو گالیاں دینا اور بعض اوقات مارنا بھی تاکہ لوگ اس سے ڈرتے رہیں اور وہ خود کو اعلی ثابت کرتا رہے

شرفاء اورغریب لوگ بیچارے اس سے ڈرتے تھے اور رب سے فریاد کرتے تھے کہ الہی اس ظالم سے تو ہی بچا اور اس کا خانہ خراب فرما

وقت گزرتا گیا اس کے بچے بڑے ہوتے گئے بجائے پڑھنے لکھنے کے انہوں نے عیاشی کرنا شروع کر دی اور سرعام لوگوں کی بہو بیٹیوں کو تنگ کرنا بھی معمول بنالیا،

بات اس تک پہنچی تو اس نے ظنز کرتے ہوئے کہا میرے بیٹے ہںں اگر کسی کی بہو بیٹی سے بات چیت کر لیتے ہیں تو وہ عورتیں نا کریں اور اگر وہ زبردستی بات چیت کر بھی لیتے ہیں تو ان عورتوں کا کیا جاتا ہے؟ لڑکے جوان ہیں کوئی بات نہیں ایسا تو ہوتا ہی ہے

لوگ اس سے تنگ ہوتے گئے اور آخر اس کا بڑا بیٹا نشے پر لگ گیا ،دیکھتے ہی دیکھتے اس کے پانچوں بیٹے نشے پر لگ گئے اور اس کی بڑی بیٹی جو لڑکوں سے بڑی تھی رشتے نا ملنے کے باعث گھر میں بیٹھی رہی اور اس کے بالوں میں سفیدی آ گئی

وقت گزرتا گیا اس کی خوشحالی بدحالی میں بدلنا شروع ہو گئی اور اس کے معاون لوگ اس کا ساتھ چھوڑتے چلے گئے کیونکہ اب اس کے مالی حالات پہلے جیسے نا رہے تھے

خدا کی کرنی ایک دن عادت سے مجبور اس نے محلے کے ایک شریف و غریب کو گالی دی تو اس شریف نے اس کی خوب دھلائی کی کیونکہ اب اس شریف کو اس کی حالت کا اندازہ ہو گیا تھا،اپنی دھلائی پر اس نے اپنی سابق زندگی کے یاروں دوستوں کو پکارا مگر کوئی نہ آیا

وقت گزرتا گیا جن لوگوں پر وہ ظلم کرتا تھا وہ لوگ اب اس کو اس کی اوقات دکھانے لگ گئے،حتی کہ وہ بندہ اس قدر مجبور ہو گیا کہ اپنی انا کو اتار کر لوگوں سے پیسے مانگنے پر آ گیا، گھر کے حالات یہ ہو گئے کہ اس کی دوسری جوان بیٹی گھر سے بھاگ گئی کیونکہ اس سے بڑی کی شادی نہ ہو رہی تھی

بڑا بیٹا نشے کے باعث مر گیا باقی چار کبھی کہیں نشہ کرکے پڑے رہتے تو کبھی کہیں،اب وہ بوڑھا ہو گیا تھا اور گھر میں جوان بیٹی بھی موجود تھی جس کی شادی نہ ہو سکی تھی،ایک دن ایک لڑکا آیا اسی کے سامنے اس کی بیٹی کو بٹھایا اور رفو چکر ہو گیا

کسی محلے دار نے آواز کسی کہ جوان ہے جاتی ہے کسی کے ساتھ تو جانے دے کیا بگڑ جائے گا؟

یہ منظر دیکھ کر وہ رونے لگا ،چیخنے چلانے لگا،ایک بیٹی پہلے ہی گھر سے بھاگ گئی تھی اب دوسری بھی بھاگ گئی،بیوی فوت ہو گئی تھی اور بڑا بیٹا نشے سے مر گیا تھا،اب باقی چار بیٹے سڑکوں پر نشہ کرکے پڑے رہتے اور گلی کے بچے ان کو ٹھڈے مارتے،وہ یہ سب منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتا مگر اب کسی کو کچھ کہنے کے قابل نہ تھا

وہ آج بھی زندہ ہے مگر اس کا اب صرف ایک ہی بیٹا زندہ ہے،ایک اور بیٹا نشے سے مر گیا جبکہ ایک لاپتہ ہو گیا جس کا تاحال کوئی پتہ نہیں
وہ اب بہت بوڑھا ہو چکا ہے اور گلی میں بیٹھ کر لوگوں سے بھیک مانگتا ہے ،بچے اس کو ٹھپڑ مارتے ہیں وہ کچھ نہیں کر سکتا

سچ کہتے ہیں ہر عروج کو زواج ہے
اللہ تعالی ہم سب کو حسد اور ظلم سے بچے رہنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین

Leave a reply