پوری قوم کا پرچم
تحریر: سید سخاوت الوری
جشنِ آزادی اور دیگر تقریبات پر قومی پرچم اور جھنڈیوں کے احترام کے سلسلے میں چند احتیاطی تدابیر بیان کی جا رہی ہیں۔ اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو جہاں قومی پرچم کے وقار و احترام میں اضافہ ہوگا، وہاں اس کی قدر و منزلت میں بھی اضافہ ہوگا۔
پاکستانی پرچم کا ڈیزائن امیرالدین قدوائی نے تیار کیا جبکہ بابائے قوم کے حکم پر اسے سینے کا اعزاز ماسٹر الطاف حسین کو حاصل ہوا۔ (ماسٹر الطاف حسین کو قائداعظمؒ اور دیگر زعمائے تحریکِ پاکستان کے کپڑے، سوٹ اور شیروانی سینے اور خصوصی حفاظتی محافظ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔)
پرچم کا سفید حصہ اقلیتوں جبکہ سبز رنگ مسلم اکثریت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے درمیان چاند ترقی کا مظہر اور پنج گوشہ ستارہ روشنی اور علم کی نمائندگی کرتا ہے۔ قومی ترانے میں اسے "پرچمِ ستارہ و ہلال” کہا گیا ہے۔ اس پرچم کی منظوری قائداعظم محمد علی جناح نے دی تھی۔
عمارتوں پر جو قومی پرچم لہرایا جاتا ہے اس کی لمبائی چوڑائی عموماً 6 فٹ × 4 فٹ یا 3 فٹ × 2 فٹ ہوتی ہے۔ کاروں پر لہرائے جانے والے پرچم کا سائز 12 انچ × 8 انچ ہوتا ہے۔ یہ بات عام عوام کو معلوم نہیں، حالانکہ ابلاغِ عامہ کے تمام ذرائع (پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا)، کیبل اور اخبارات و جرائد کے ذریعے عوام کو بتانا چاہئے کہ قومی پرچم محض کاغذ یا کپڑے کا ٹکڑا نہیں بلکہ قوم و ملک کی وحدت، عظمت، وقار اور خودمختاری و آزادی کا مظہر ہے۔
قومی پرچم کے احترام کے لئے احتیاطی تدابیر
جشنِ آزادی کے دنوں میں بچے شوق سے گھروں پر قومی پرچم لہراتے اور جھنڈیوں سے سجاتے ہیں، لیکن جب تقریبات ختم ہوجائیں تو انہیں لپیٹ کر احتیاط سے محفوظ رکھ دیا جائے۔ اسی طرح جھنڈیاں بھی اُتار کر محفوظ کر لی جائیں۔
گلیوں اور بازاروں میں بھی یہی عمل ہونا چاہئے، کیونکہ عام طور پر جھنڈیاں پیروں تلے روندی جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ جشن کی تقریبات ختم ہوتے ہی انہیں اُتار دیا جائے۔
شہری انتظامیہ بینرز اور جھنڈیوں کو بعد میں اُتارتی ضرور ہے، لیکن یہ کام فوری طور پر ہونا چاہئے تاکہ بارش، آندھی یا تیز ہوا سے یہ ٹوٹ کر سڑک پر نہ گریں۔
قومی پرچم اور جھنڈیاں پرنٹ کرتے وقت اس کا معیار مدنظر رکھا جائے اور مقررہ رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ میں پرنٹ نہ کیا جائے۔ اس کے حقیقی ڈیزائن اور سائز کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ قومی پرچم پر لوگ اپنے پسندیدہ لیڈرز کی تصاویر بھی لگا دیتے ہیں، یہ بھی قومی پرچم کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ قومی پرچم کے اوپر کچھ اور چھاپا یا لکھا نہیں ہونا چاہئے۔
تاریخی پس منظر
تاریخی اعتبار سے پاکستانی قوم کی وابستگی اور بنیادی نقوش کا تعلق اس پرچم سے ہے جو 30 دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں اس موقع پر لہرایا گیا تھا جب وہاں برصغیر کی مختلف تنظیموں کے قائدین کا ایک نمائندہ اجتماع ہوا، جس کے نتیجے میں مسلمانانِ ہند کی اوّلین سیاسی جماعت "آل انڈیا مسلم لیگ” تشکیل پائی۔
ڈھاکہ میں جو پرچم استعمال کیا گیا اس کا رنگ سبز تھا اور درمیان میں ہلال و ستارہ تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے اجلاس منعقدہ 11 اگست 1947ء میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ خان لیاقت علی خان نے قومی پرچم باضابطہ طور پر منظوری کے لئے پیش کیا۔
اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
"جنابِ والا! یہ پرچم کسی ایک پارٹی یا ایک طبقے کا پرچم نہیں، یہ پاکستانی قوم کا پرچم ہے اور کسی بھی قوم کا پرچم محض کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں ہوتا، اس کی خصوصیت اس کے کپڑے میں نہیں بلکہ ان اصولوں پر ہوتی ہے جن کا یہ حامل ہے اور میں بلا خوف کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی پرچم اپنے وفاداروں اور اطاعت گزاروں کی آزادی، خودمختاری اور مساوات کا پاسبان رہے گا۔ یہ پرچم ہر شہری کے جائز حقوق کا تحفظ کرے گا۔ انشاء اللہ”