لگی ہے آگ پھولوں کو، جبر کے موسم میں سچ کون بولے گا؟
تحریر:شاہدریاض
یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ درختوں کی شاخیں ساکت ہیں، پرندے خاموش ہیں، اور فضا میں گھٹن ایسی ہے کہ سانس لینا بھی جرم لگتا ہے۔ چمن میں آگ لگی ہے، مگر کوئی نہیں بولتا۔ شاید اس لیے کہ جو بولتا ہے، وہ جلا دیا جاتا ہے، یا پھر کفن پہنا دیا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی سانس لیتا بھی ہے تو اس کے لہجے میں خوف، تحریر میں احتیاط، اور آنکھوں میں وہ چمک باقی نہیں رہتی جو سچ کا پہلا تعارف ہوتی ہے۔کسی شاعر نے اپنی نظم میں جھنجھوڑتے ہوئے کہاکہ
لگی ہے آگ پھولوں کو، چمن میں کون بولے؟
ابھی زندہ ہوں، بولو تم، کفن میں کون بولے گا؟
زبانیں کاٹ دو گے سب، اگر سچ بولنے والی،
حکومت ظلم کی ہوگی، وطن میں کون بولے گا؟
یہ خاموشی کسی طوفان کا لازم پیش خیمہ ہے،
ذرّہ سی کھڑکیاں کھولو، گھٹن میں کون بولے گا؟
صحافی کی زباں ہے یا قلم ہے ایک لکھاری کا،
یہ سب چپ رہے تو آخر، سچائی کون بولے گا؟
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں سچ بولنے والوں کی زبانیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ جہاں صحافت ایک پیشہ نہیں، بلکہ جرم بن چکی ہے۔ جہاں قلم چلانا، بندوق اٹھانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ جہاں لکھنے والے پر مقدمہ نہیں، فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ جہاں سوال پوچھنے والا "غدار” قرار پاتا ہے اور خاموش رہنے والا "محب وطن” مانا جاتا ہے۔
کیا واقعی یہی وہ آزادی ہے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا؟ کیا یہی وہ جمہوریت ہے جس پر ہم ہر سال ووٹ ڈالنے کی رسم ادا کرتے ہیں؟ کیا واقعی اس وطن میں صرف وہی زندہ ہے جو حکومت کی زبان بولے؟ اور جو عوام کی زبان بنے، وہ غائب، خاموش یا مردہ قرار پاتا ہے؟
آج جب مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، بے روزگاری ہر دروازے پر دستک دے رہی ہے، سیلاب سے شہر کے شہر ڈوب رہے ہیں، تعلیم ایک خواب بن چکی ہے اور علاج ایک نایاب سہولت… تب اگر کوئی صحافی ان سوالات کو آواز دیتا ہے تو وہ "ریاست مخالف” قرار پاتا ہے۔ جب ایک لکھاری ظالم کے چہرے سے نقاب اتارنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عدالتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ جب ایک شاعر خون کے آنسو روتے عوام کا نوحہ لکھتا ہے تو اسے "مذہب، ریاست یا اداروں” کے خلاف پروپیگنڈا کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔
یہ جو اشعار ہیں "ابھی زندہ ہوں، بولو تم؛ کفن میں کون بولے گا؟” یہ صرف شاعری نہیں، ایک سوال ہے اس معاشرے سے، اس سسٹم سے اور ہم سب سے۔ اگر آج ہم چپ رہے تو کل ہماری خاموشی کا ماتم کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ ظلم کو دیکھ کر خاموش رہنے والے دراصل ظلم کے معاون ہوتے ہیں۔ اور اگر ہر درخت، ہر پنچھی، ہر دریا، ہر پہاڑ، ہر دیوار خاموش ہو جائے تو پھر سچ کے لیے کون بولے گا؟
سوال صرف یہ نہیں کہ زبانیں کیوں بند ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ "کس نے بند کی ہیں؟” اور اگر ہم نے خود اپنے ہونٹ سِیے ہیں تو پھر ہم اس آگ کے ذمہ دار بھی خود ہیں جو چمن کو جلا رہی ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ صرف ایک شخص کے بولنے سے کچھ نہیں بدلتا، لیکن اگر سب خاموش رہیں تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ آوازیں کچلی جا سکتی ہیں، لیکن جذبے نہیں۔ قلم روکا جا سکتا ہے، لیکن خیالات کی پرواز کو زنجیر نہیں پہنائی جا سکتی۔ کاغذ جلا سکتے ہو، لیکن سوچوں کی آگ بجھانا تمہارے بس میں نہیں۔
لہٰذا اب بھی وقت ہے۔ ذرہ سی کھڑکیاں کھولو، ہوا آنے دو، سچ کو سانس لینے دو۔ صحافیوں، لکھاریوں، شاعروں، اور فنکاروں کو مت روکو — کیونکہ اگر یہ سب چپ رہے تو اس وطن میں کون بولے گا؟ اگر آج ہم سچ کے ساتھ نہ کھڑے ہوئے، تو کل ہماری نسلیں سچ کا چہرہ پہچاننے کے قابل بھی نہ رہیں گی۔
لگی ہے آگ پھولوں کو اور اگر ہم نے اب بھی لب نہ کھولے، تو نہ چمن بچے گا، نہ ہم۔









