مزید دیکھیں

مقبول

جعفر ایکسپریس حملے پر ٹوئٹ ، چیئرمین پی ٹی آئی کا ردعمل آگیا

اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین...

کراچی: ایک سال میں 5 لاکھ گاڑیاں ضبط کیں، ایڈیشنل آئی جی

کراچی: ایڈیشنل آئی جی جاوید عالم اوڈھو کا کہنا...

ساگ

ساگ
تحریر:شاہدریاض
ساگ ایک ایسی ڈش جو پنجاب کی مٹی سے جڑی ہوئی ہے۔ ایسی سبزی ہے جس کا نام سن کر ہی دیہاتی زندگی کی یادیں اور پکوانوں کی خوشبو تازہ ہو جاتی ہے۔ یہ پودے کے پتوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو موسم سرما کے دوران خاص طور پر کھایا جاتا ہے اور دیہی علاقوں میں مکئی اور چاول کی روٹی کے ساتھ ایک لازمی حصہ ہوتا ہے۔ ساگ پنجابی ثقافت اور دیہاتی زندگی کا ایک اٹوٹ انگ ہے اور یہ نہ صرف غذائی اہمیت کا حامل ہے بلکہ تہذیبی طور پر بھی گہری جڑیں رکھتا ہے۔

ساگ کی جڑیں ایران تک پھیلی ہوئی ہیں جہاں اسے ابتدائی طور پر دریافت کیا گیا اور "سپناغ” کے نام سے جانا گیا۔ اسی "سپناغ” سے انگریزی میں "سپائنچ” (Spinach) کا لفظ نکلا، جو پالک کی شکل میں استعمال ہوتا ہے۔ جب ساگ ایران سے نکل کر برصغیر پہنچا، تو یہاں کے موسم اور زمین نے اس کی مختلف اقسام کو فروغ دیا اور یوں یہ ہر دیہی گھر کا ایک لازمی جزو بن گیا۔

ساگ کی کئی اقسام ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی منفرد ذائقہ اور غذائیت کے لحاظ سے مشہور ہے،سرسوں کا ساگ سب سے زیادہ مشہور ہے جو مکئی اورچاول کی روٹی کے ساتھ کھایا جاتا ہے اور مکھن یا دیسی گھی کے ساتھ اس کا ذائقہ مزید دوبالا ہو جاتا ہے۔پالک کے ساگ میں وٹامن اے اور آئرن کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے، جو جسم کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔بتھوے کا ساگ ذائقے میں تھوڑا تیکھا ہوتا ہے اور اکثر سرسوں کے ساگ کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ میتھی کے ساگ میں خوشبو دار پتے ہوتے ہیں جو کھانوں کو ایک خاص ذائقہ دیتے ہیں۔خرفے کا ساگ یہ کم مشہور لیکن غذائیت سے بھرپور ساگ ہے جو خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں استعمال ہوتا ہے۔

ساگ صرف ذائقے میں لذیذ نہیں بلکہ غذائی لحاظ سے بھی نہایت اہم ہے۔ اس میں کیلشیم، آئرن، وٹامن اے، بی اور ای بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ساگ کا استعمال جسم میں خون کی صفائی کرتا ہے اور زہریلے مادے ختم کرتا ہے۔ سرسوں کے ساگ میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ یہ گوشت کے برابر غذائیت فراہم کرتا ہے۔ اس کے پتے گندھک سے بھرپور ہوتے ہیں جو جلد اور جسمانی نظام کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے۔

پنجاب اور دیگر دیہی علاقوں میں ساگ کا استعمال صرف ایک کھانے تک محدود نہیں۔ یہ دیہاتی زندگی اور ثقافت کی علامت ہے۔ سردیوں کے آغاز سے ہی گھروں میں ساگ پکانے کا اہتمام ہوتا ہے اور مکئی اورچاول کی روٹی کے ساتھ اس کا ملاپ ہر گھر کی روایت ہوتی ہے۔ سردیوں کی سرد راتوں میں چولہے پر پکتا ہوا ساگ گھر میں گرمائش اور محبت کا احساس دلاتا ہے۔ ایک عام کہاوت ہے کہ "ساگ اور آگ جس گھر کو لگ جائے، وہ مشکل سے ہی بچتے ہیں”، یعنی ساگ دیہات کے لیے ایک لازمی جزو ہے۔

ساگ پکانے میں کافی وقت اور محنت درکار ہوتی ہے کیونکہ اس کے پتوں کو پہلے اچھی طرح دھونا، کاٹنا اور پھر پکانے کے لیے تیاری کرنا ہوتا ہے۔ ساگ کو پکاتے ہوئے اکثر خواتین اسے گھنٹوں تک ہلکی آنچ پر پکاتی ہیں تاکہ اس کا ذائقہ اور غذائیت برقرار رہے۔ اسے پکانے کا ایک خاص طریقہ یہ بھی ہے کہ اس میں مختلف قسم کے ساگ ملا کر پکایا جاتا ہے جیسے سرسوں، بتھوا، پالک اور میتھی۔ جب ساگ مکمل پک جاتا ہے تو اس پر مکھن یا دیسی گھی کا تڑکا لگایا جاتا ہے جو اس کا ذائقہ دوبالا کر دیتا ہے۔

بچپن میں ساگ کھانے کی یادیں بہت دلچسپ ہوتی ہیں، اکثر بچوں کو ساگ کا ذائقہ پسند نہیں ہوتا اور وہ اسے کھانے سے کتراتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ نہ صرف ان کی پسندیدہ ڈش بن جاتی ہے بلکہ ایک روایت کا حصہ بھی بن جاتی ہے۔ بہت سے لوگ اپنی ماؤں اور دادیوں کے ہاتھ کا پکا ہوا ساگ یاد کرتے ہیں اور یہ یادیں زندگی بھر ان کے ساتھ رہتی ہیں۔

ساگ صرف ایک غذا نہیں بلکہ اس میں ایک فلسفہ چھپا ہوا ہے۔ یہ دیہات کی سادگی، محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے کی علامت ہے۔ ساگ کا موسم سردیوں میں آتا ہے، جب لوگ گھروں میں اکٹھے بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ یہ میل جول اور اپنائیت کی علامت ہے۔ ساگ دیہات کی جڑوں سے جڑا ہوا ہے اور یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سادگی میں ہی خوبصورتی ہے۔

اگر ساگ کو بین الاقوامی سطح پر بھی اسی اہمیت کے ساتھ تسلیم کیا جائے تو شاید یہ عالمی تعلقات میں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایک مزاحیہ تجویز کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اگر اسرائیل ساگ کو اپنی قومی ڈش قرار دے دے تو شاید مشرق وسطیٰ کے بہت سے جھگڑے ختم ہو جائیں۔

ساگ کا ذکر محبت کے بغیر ادھورا ہے، ساگ کے رنگ سے جڑی محبتوں کی کہانیاں بھی مشہور ہیں، یہ دلوں کو جیتنے والی سبزی ہے، اور کبھی کبھی ایک ہلکی سی مسکراہٹ یا محبت بھری یاد کے ساتھ ساگ کے رنگ میں رنگے دل کو پگھلا دیتی ہے۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ساگ نہ صرف جسمانی طور پر مفید ہے بلکہ یہ ایک روحانی تجربہ بھی ہے۔ اس کی غذائیت، ذائقہ، اور دیہی زندگی سے جڑی کہانیاں اسے خاص بناتی ہیں۔ ساگ ایک ایسی ڈش ہے جو دیہات کی محبت، قربت اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے کا مظہر ہے۔ ساگ اور مکئی کی روٹی کا نعرہ ہر گھر میں گونجتا ہے، اور یہ نعرہ ہمیشہ گونجتا رہے گا۔

ساگ دے نعرے وجنے ای وجنے نے!

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانیhttp://baaghitv.com
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی 2003ء سے اب تک مختلف قومی اور ریجنل اخبارات میں کالمز لکھنے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹنگ اور گروپ ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرکے طورپر زمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں اس وقت باغی ٹی وی میں بطور انچارج نمائندگان اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں