وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور سینیٹر رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفوں سے حکومت کا مؤقف درست ثابت ہوگیا ہے کہ دونوں ججز کا ذاتی اور سیاسی ایجنڈا تھا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ استعفیٰ دینے والے ججز قابلِ احترام ہیں، تاہم دونوں نے اپنے خط میں سیاسی تقریر کی۔ ان کے بقول، سپریم کورٹ کا جج بن کر تقریریں کرنا بدقسمتی ہے، اگر صرف گفتگو کرنی ہے تو جج بننے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔انہوں نے کہا کہ جو جج ازخود نوٹس کے ذریعے وزیراعظم کو فارغ کرے، وہ آزاد اور انصاف پسند کیسے ہو سکتا ہے؟ رانا ثنااللہ نے بتایا کہ نئی ترمیم کے بعد اب جج کے تبادلے کے وقت متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شامل ہوں گے۔ 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد جوڈیشل کمیشن موجود نہیں رہے گا بلکہ وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، جس کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری وزیراعظم کی ایڈوائس پر ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئینی عدالت کے ججز سپریم کورٹ کے ججوں میں سے مقرر کیے جائیں گے، جبکہ ان کے خیال میں آئینی عدالت کا سربراہ جسٹس امین الدین کو ہونا چاہیے کیونکہ وہ پہلے بھی آئینی بینچ کی سربراہی کر چکے ہیں۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے 27ویں آئینی ترمیم کو آئین پر حملہ قرار دیتے ہوئے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے
فرق نہیں پڑتا، بہت پہلے استعفیٰ دینا چاہیے تھا،ججز استعفے پر سپریم کورٹ بار ردعمل
اوچ شریف: بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کرپشن، مستحق خواتین کی رقم ہڑپ








