حالیہ مہینوں میں، حوثیوں نے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر اپنے حملوں میں اضافہ کیا ہے، حوثیوں نے اسرائیل جانے والے جہازوں کو نشانہ بنایا، ان حملوں کے پیچھے بنیادی محرک حوثیوں کی حماس کے لیے حمایت نظر آتی ہے، کیونکہ حوثیوں نے واضح اعلان کر رکھا ہے کہ اسرائیل کی طرف جانے والے کسی بھی جہاز کو نشانہ بنایا جائے گا، سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر ایک شدید حملے کے بعداسرائیل نے فلسطین پر حملہ کیا اور وہاں سے شروع ہونےوالی دشمنی اب بھی جاری ہے
حوثیوں نے اپنی ابتدائی کوشش میں نومبر میں اسرائیل کے لیے ایک مال بردار جہاز پر قبضہ کیا،اس کے بعد کارگو جہازوں پر بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے حملےکئے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملوں میں نومبر اور دسمبر کے درمیان 500 فیصد اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے کئی بڑی تجارتی کمپنیوں نے خطے میں کارگو کی ترسیل روک دی۔ جس کی وجہ سے دسمبر سے کارگو کی قیمتوں میں دس گنا اضافہ ہوا ،
حوثیوں کی کاروائیوں کو دیکھا جائے تو انہیں ایران کی بھی حمایت حاصل ہے، تاکہ عسکری صلاحیت کا مظاہرہ کیا جا سکے، ایک زیادہ قابل فہم مقصد ملکی حمایت حاصل کرنا ہو سکتا ہے۔ خود کو اسرائیل کو چیلنج کرنے والی ایک مضبوط قوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے، حوثیوں کا مقصد یمنیوں کو متحد کرنا اور حریف گروپوں کو بے اثر کرنا ہے۔ یہ حکمت عملی خاص طور پر اہم ہو جاتی ہے کیونکہ دیگر عرب ممالک نے اسرائیل کے خلاف مضبوط موقف اختیار نہیں کیا ، جس سے حوثیوں کی علاقائی حیثیت میں اضافہ ہوا ہے۔
بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنی حکومت ،جارح حوثی موقف سعودی عرب کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔حوثیوں کے حملوں کے وسیع جغرافیائی سیاسی اثرات ہو سکتے ہیں، ممکنہ طور پر ایران، امریکہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کو بڑھا کر اسرائیل کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ حملے مختلف پراکسیوں کا فائدہ اٹھا کر تہران کے جوہری پروگرام سمیت علاقائی تنازعات پر ایران کی مذاکراتی پوزیشن کو مضبوط کر سکتے ہیں۔
اختتامی نوٹ: بحیرہ احمر کے بحری جہازوں پر حوثی حملوں کے پیچیدہ محرکات ہیں، جن میں حماس کی حمایت شامل ہے، ملکی سیاسی تحفظات ہیں اور ایران اور اسرائیل دونوں کے لیے ممکنہ جغرافیائی سیاسی فوائد ہیں۔ خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال کو سمجھنے کے لیے ان حرکیات کو سمجھنا بہت ضروری ہے