ناول خاک اور خون، فیروز پور اور گورداسپور کیسے بھارت کو ملے
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
نسیم حجازی کا شہرہ آفاق ناول خاک اور خون برصغیر کے مسلمانوں کی اس عظیم قربانی کا ادبی مرثیہ ہے جو انہوں نے 1947 کی تقسیمِ ہند کے دوران پیش کی۔ یہ محض ایک تخیلی داستان نہیں بلکہ حقیقت کے ایسے ٹکڑوں کا ادبی امتزاج ہے جنہیں مصنف نے کرداروں، مکالموں اور جذبات کے ذریعے زندہ کر دیا۔ اس میں قتل و غارت کے مناظر، قافلوں پر ہونے والے حملے، عورتوں کی عزتیں پامال ہونے کے واقعات اور بچھڑنے والے خاندانوں کا کرب اس شدت سے بیان کیا گیا ہے کہ قاری خود کو اس زمانے کے دل دہلا دینے والے حالات میں محسوس کرتا ہے۔ ناول میں ایک اشارہ اس طرف بھی ملتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی سازشوں، ذاتی تعلقات اور خفیہ سودوں نے پاکستان کی سرحدوں کو اس طرح بدل دیا کہ کئی مسلم اکثریتی علاقے آخری لمحوں میں بھارت کے حصے میں چلے گئے۔ انہی علاقوں میں فیروز پور اور گورداسپوربھی شامل تھے جن کا پاکستان سے چھن جانا نہ صرف اس وقت ایک صدمہ تھا بلکہ اس کے اثرات آج تک محسوس کیے جاتے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی تقسیمِ ہند کے اصول طے ہوئے کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور غیر مسلم اکثریتی علاقے بھارت کا حصہ بنیں گے۔ 3 جون 1947 کو مانٹ بیٹن پلان کے مطابق پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے لیے باؤنڈری کمیشن بنایا گیا جس کی سربراہی برطانوی جج سر سائریل ریڈ کلف کو دی گئی۔ یہ شخص اس خطے سے بالکل ناآشنا تھا اور اسے صرف پانچ ہفتوں میں سرحدی لکیر کھینچنے کا مشکل ترین کام سونپا گیا۔ کاغذ پر اصول سادہ تھا، مگر زمینی حقیقت کچھ اور تھی۔ فیروز پور ایک مسلم اکثریتی ضلع تھا جس کی آبادی 51 فیصد سے زائد مسلمان تھی۔ یہ ستلج دریا اور نہری نظام کے کنٹرول کی وجہ سے اسٹریٹجک اہمیت رکھتا تھا۔ گورداسپور بھی چار تحصیلوں پر مشتمل تھا جن میں سے تین میں مسلمان اکثریت میں تھے اور اس کی جغرافیائی پوزیشن بھارت کو کشمیر تک براہِ راست زمینی راستہ دیتی تھی۔
تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ ریڈ کلف کے ابتدائی مسودے میں دونوں اضلاع پاکستان کو ملنے والے تھے۔ اگست 1947 کے پہلے ہفتے میں تیار ہونے والے نقشوں میں فیروز پور مکمل طور پر اور گورداسپور کی تین تحصیلیں پاکستان میں شامل تھیں۔ لیکن 12 اگست کو صورتحال بدل گئی۔ بعض مورخین کے مطابق اس تبدیلی کا پس منظر نہرو اور وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کی ملاقاتوں سے جڑا تھا۔ ان ملاقاتوں کا ذکر کئی برطانوی اور بھارتی ذرائع میں ملتا ہے اور ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کے قریبی تعلقات کو بھی ان فیصلوں پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں شمار کیا جاتا ہے۔ الیسٹر لیمب اور اسٹینلی وولپرٹ جیسے محققین نے لکھا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن نے اس موقع پر جانبداری کا مظاہرہ کیا جبکہ ایڈوینا اور نہرو کے تعلقات برطانوی ایوانِ اقتدار میں ایک غیر رسمی مگر اثر انگیز چینل کے طور پر کام کرتا رہا۔
یہ بات مصدقہ ہے کہ 6 سے 8 اگست کے درمیان تیار ہونے والے ابتدائی ڈرافٹ اور 12 اگست کے بعد سامنے آنے والے حتمی فیصلوں میں واضح فرق تھا۔ فیروز پور اور گورداسپور کے نقشے بدل دیے گئے اور دونوں اضلاع کو بھارت میں شامل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ باضابطہ وجہ یہ بتائی گئی کہ گورداسپور کو بھارت دینے سے فوجی اور انتظامی ضروریات پوری ہوں گی اور فیروز پور کے معاملے میں ستلج کے ہیڈ ورکس کا کنٹرول بھارت کے پاس جانا بہتر ہے۔ لیکن یہ وضاحت کمزور تھی کیونکہ ایسی ضرورتیں ابتدائی ڈرافٹ میں کیوں نظر نہیں آئیں، اس کا جواب کبھی تسلی بخش نہیں دیا گیا۔
14 اگست 1947 کو پاکستان اور بھارت کی آزادی کا اعلان ہوا، مگر باؤنڈری کمیشن کے فیصلوں کا اعلان تین دن بعد17 اگست کو کیا گیا۔ اس تاخیر کا مقصد یہ بتایا گیا کہ نئے ملکوں کے اعلان کے وقت کشیدگی کو کم رکھا جائے، لیکن بعض محققین کے مطابق یہ تاخیر بھارت کو کشمیر کے لیے زمینی راستے کی تیاری کا وقت دینے کے لیے تھی۔ جب فیصلے سامنے آئے تو گورداسپور کی تین تحصیلیں پٹھان کوٹ، گورداسپور اور بٹالہ بھارت کو مل گئیں، صرف شکر گڑھ پاکستان کو دیا گیا۔ فیروز پور مکمل طور پر بھارت کو چلا گیا۔ یہ فیصلہ آبادی کے اصولوں کے برخلاف تھا کیونکہ دونوں علاقوں میں مسلمانوں کی واضح اکثریت تھی۔
ان فیصلوں کے اثرات فوری طور پر ظاہر ہوئے۔ اکتوبر 1947 میں بھارت نے گورداسپور کے راستے فوجی نقل و حرکت شروع کی اور یہی راستہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے داخلے کا بنیادی ذریعہ بنا۔ فیروز پور کے بھارت کو ملنے سے پاکستان کا ستلج دریا اور نہری نظام پر کنٹرول کمزور پڑ گیا اور یہ مسئلہ بعد میں پانی کی تقسیم کے تنازع میں ایک اہم فیکٹر بن گیا۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر رہنماؤں نے ان فیصلوں کو ماؤنٹ بیٹن کی جانبداری اور برطانوی حکومت کے خفیہ ایجنڈے کا حصہ قرار دیا۔ چوہدری محمد علی، ڈاکٹر صفدر محمود اور شریف المجاہد جیسے مورخین نے بارہا لکھا ہے کہ یہ تبدیلی محض انتظامی بنیادوں پر نہیں بلکہ سیاسی اور ذاتی تعلقات کے پس منظر میں کی گئی۔
خاک اور خون میں ان فیصلوں کو براہِ راست نہیں لیکن اشاروں کنایوں میں بیان کیا گیا ہے۔ نسیم حجازی نے یہ پیغام دیا کہ آزادی کا سورج ایک ایسے افق سے طلوع ہوا جس پر سازشوں کا سایہ تھا۔ لاکھوں مسلمانوں نے جان، مال اور عزت قربان کر کے پاکستان کا خواب پورا کیا، مگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے چند افراد کے فیصلوں نے کئی مسلم اکثریتی علاقے چھین لیے۔ ناول کے کردار قاری کو یاد دلاتے ہیں کہ یہ سرحدیں کاغذ پر نہیں بلکہ خون اور قربانی سے بنی ہیں اور جو حصے پاکستان کو ملنے چاہیے تھے وہ بھی بعض پوشیدہ ہاتھوں نے چھین لیے۔
فیروز پور اور گورداسپور کی بھارت کو منتقلی محض ایک جغرافیائی تبدیلی نہیں تھی بلکہ اس نے برصغیر کی تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف کشمیر کا تنازع پیدا ہوا بلکہ پانی کے وسائل پر بھی مستقل کشیدگی قائم ہو گئی۔ پاکستان آج بھی اس فیصلے کو ایک تاریخی ناانصافی سمجھتا ہے۔ یہ بحث آج بھی زندہ ہے کہ آیا یہ فیصلہ ذاتی تعلقات کا نتیجہ تھا، برطانوی سامراجی پالیسی کا تسلسل تھا یا بین الاقوامی سیاست کی ایک بڑی بساط کا حصہ۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ 1947 میں ان اضلاع کا بھارت میں شامل ہونا پاکستان کے لیے ایک ایسا زخم بن گیا جو وقت کے ساتھ مندمل ہونے کے بجائے مزید گہرا ہوتا گیا۔ یہ زخم آج بھی قومی یادداشت میں محفوظ ہے اور نسیم حجازی جیسے ادیبوں کے قلم نے اسے امر کر دیا ہے تاکہ آنے والی نسلیں جان سکیں کہ پاکستان کا حصول صرف ایک سیاسی معاہدہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسا سفر تھا جو قربانی، سازش اور صبر کے امتزاج سے مکمل ہوا۔
آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ یہ ہماری نوجوان نسل اور ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ان تمام لوگوں کے لیے ایک گہرا پیغام ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ملک انہیں کسی پلیٹ میں رکھ کر دیا گیا تھا۔ خاک اور خون کے ہر صفحے سے یہ صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے کہ پاکستان کی بنیاد لاکھوں شہدا کے خون، بے شمار ماؤں کی قربانیوں اور بچھڑ جانے والے خاندانوں کے آنسوں پر رکھی گئی ہے۔ فیروز پور اور گورداسپور کا پاکستان سے کاٹ کر بھارت کو دینا محض ایک نقشے کی لکیروں کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ ہماری تاریخ کا وہ لمحہ تھا جب سازش اور طاقت کی بساط پر قربانی کے اصول روند دیے گئے۔ آج اگر ہم اپنی سرحدوں، وسائل اور خودمختاری کی حفاظت میں غفلت برتیں تو یہ انہی قربانیوں کی توہین ہوگی۔ نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی ایک امانت ہے اور ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ہر شخص کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس ملک کی حفاظت اور بقا کے لیے وہی جذبہ، وہی جرات اور وہی یکجہتی درکار ہے جو 1947 میں لاکھوں گمنام شہدا نے دکھائی۔ پاکستان کسی خیرات میں نہیں ملا، یہ ایک قرض ہے جو ہم پر واجب الادا ہے اور جسے ہمیں آنے والی نسلوں تک عزت، وقار اور مضبوطی کے ساتھ منتقل کرنا ہے۔