امن، ترقی و خوشحالی کا واحد راستہ ، ہمسایہ بدلو
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
قیام پاکستان سے لے کر آج تک بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات دشمنی، سازش اور جارحیت کی تلخ داستان ہیں۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت سے بھارت نے دشمنی کی بنیاد رکھ دی۔ مقبوضہ کشمیر پر قبضہ، 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بلوچستان و خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی پشت پناہی،یہ سب بھارت کی ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں۔ پاکستان نے بارہا امن کی کوشش کی، لیکن ہر بار جنگ، الزامات یا عالمی سطح پر بدنامی کی سازشیں ملیں۔ آج جب بھارت نے کشمیر کو جیل بنا دیا اور کھلی جارحیت کا راستہ اپنایا تو سوال یہ ہےکہ کیا اس ہمسائے کے ساتھ امن، ترقی اور خوشحالی ممکن ہے؟ جس کاجواب واضح ہے کہ نہیں۔کشمیر کی آزادی ، پاکستان اور خطے کے لیے امن، ترقی اور خوشحالی کا صرف ایک ہے راستہ بچتا ہے کہ ہمسایہ بدلو۔
بھارت کی پاکستان دشمنی کوئی راز نہیں۔ 1971ء میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را” نے مُکتی باہنی کے روپ میں بھارتی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کیں،وہاں پاکستان کے خلاف منظم سازش کرکے پاکستان کو دولخت کیا۔ اس کے بعد بلوچستان میں بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) اور خیبر پختونخوا میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) جیسے دہشت گرد گروہوں کو بھارتی حمایت کے ثبوت مسلسل سامنے آئے۔ 2016ء میں گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے اعترافات نے بھارت کی بلوچستان میں تخریب کاری کو بے نقاب کیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، جہاں بھارت پاکستان کی ترقی اور استحکام کو کمزور کرنے کے لیے ہر حربہ آزما رہا ہے۔
جموں و کشمیر بھارت کے مظالم کی سب سے بڑی گواہی ہے۔ 1947ء سے اب تک، بھارتی فورسز نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو کچلنے کے لیے تشدد کی انتہا کی۔ 2019ء میں آرٹیکل 370 کی منسوخی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے پولیس اسٹیٹ میں بدل دیا۔ پیلٹ گنوں سے بچوں کی آنکھیں چھین لی گئیں، ماورائے عدالت قتل عام کرایا اور جبری گمشدگیوں نے گھر اجاڑ دیے۔ بھارت نے کشمیری مزاحمت کو دہشت گردی کا لیبل لگا کر دبانے کی کوشش کی، لیکن کشمیریوں کا عزم ناقابل تسخیر ہے۔ 2025ء میں پہلگام میں سیاحوں پر حملہ بھارت کا ایک اور ڈرامہ تھا جسے بغیر ثبوت پاکستان پر تھوپ کر جارحیت کا جواز بنایا گیا۔ یہ حملہ بھارت کی داخلی ناکامیوں کو چھپانے اور کشمیری جدوجہد کو بدنام کرنے کی سازش تھی۔
اس سازش کا نقطہ عروج 7 مئی 2025ء کو دیکھنے میں آیا، جب بھارت نے "آپریشن سندور” کے نام سے پاکستان اور آزاد کشمیر پر میزائل حملے شروع کیے۔ یہ کھلی جنگ تھی، جس کا پاکستان نے عظیم صبر کے بعد جواب دیا۔ 9 مئی کو "آپریشن بنیان مرصوص” کا آغاز ہوا، اور 10 مئی کو صرف پانچ گھنٹوں کی جنگ نے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے جدید رافال طیاروں، ڈرونز اور ڈیرھ ارب ڈالر سے زائد مالیت کے S-400 دفاعی نظام کو تباہ کر دیا۔ پاکستانی فوج کی بے مثال کارکردگی اور قوم کی یکجہتی نے بھارت کو عبرتناک شکست کی ذلت سے دوچار کیا۔ امریکی ثالثی میں جنگ بندی کے بعد بھارت کو اپنی ہار ماننا پڑی اور پاکستانی عوام نے اسے "یوم فتح” کے طور پر منایا۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ پاکستان کا نقصان نہ ہونے کے برابر تھا جبکہ بھارت کا مورال چکناچور ہوا۔ بی بی سی کے تجزیہ کار اینبرسن اتھرجان سمیت انٹرنیشنل میڈیا نے بھی پاکستانی فضائیہ کی برتری کو تسلیم کیا جو بھارت کے اربوں ڈالر کے اسلحے پر بھاری پڑی۔
یہ فتح پاکستان کی قوت اور عزم کی علامت ہے، لیکن بھارت کی جارحیت سے امن، ترقی اور خوشحالی کا خواب ادھورا ہے۔ سات دہائیوں سے وہ ہمسایہ جو دشمنی، سازش اور تخریب کاری پر آمادہ رہا، اس کے ساتھ پرامن مستقبل ناممکن ہے۔ بھارت کی شر انگیزیوں سے نجات اور خطے میں استحکام کے لیے پاکستان کو ایک نئے ہمسائے کی ضرورت ہے اور وہ ہمسایہ صرف خالصتان ہو سکتا ہے۔
خالصتان کی تحریک سکھ برادری کی آزادی کی جائز جدوجہد ہے جو بھارت میں امتیازی سلوک، استحصال اور نسل کشی کا شکار رہی ہے۔ حالیہ جنگ میں سکھ نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر پاکستان کی حمایت کی، بھارتی پالیسیوں کی مذمت کی اور خالصتان کو اپنی منزل قرار دیا۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ سکھ اور پاکستانی عوام کے مفادات مشترک ہیں۔ اگر پاکستان خالصتان کی تحریک کو سفارتی، اخلاقی اور جہاں ممکن ہو، عملی حمایت دے تو یہ بھارت کو اندرونی طور پر کمزور کر دے گا۔ خالصتان کی تشکیل نہ صرف بھارت کی طاقت کو توڑے گی بلکہ مقبوضہ کشمیر پر اس کے غاصبانہ قبضے کو بھی ختم کر دے گی۔ خالصتان کی آزادی خطے میں امن کی بنیاد رکھے گی جبکہ اس سے پاکستان کے لیے نئے سفارتی، اقتصادی اور سماجی مواقع پیدا ہوں گے جو ترقی اور خوشحالی کا زینہ ثابت ہوں گے۔
اس وقت تک ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو ہم بھارت کے زخم سہتے رہیں، یا پھرایک نئے ہمسائے کے ذریعے امن، ترقی اور خوشحالی کی راہ اپنائیں۔ بھارت کے ساتھ پرامن ہمسائیگی ایک فریب ہے، جس نے ہمیں بارہا دھوکہ دیا۔ آج جب پاکستان کی قوم نے اپنی طاقت اور اتحاد کا لوہا منوایا ہے، وقت ہے کہ ہم خالصتان کو اپنا نیا ہمسایہ بنائیں۔ یہ ایک خواب نہیں، بلکہ ایک حقیقت بن سکتا ہے.ایک ایسی حقیقت جو کشمیر کے زخموں پر مرہم رکھے گی، سکھوں کو ان کا جائز حق دے گی اور پاکستان کو عزت، استحکام اور خوشحالی کی نئی بلندیوں تک لے جائے گی۔ اس لئے مؤقف ہے کہ ” ہمسایہ بدلو”کیونکہ یہ وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں جارحیت کے سائے سے نکال کر آزادی کے اجالے، امن کے ساحل اور ترقی کے افق تک پہنچائے گا۔ آئیے.. اس تاریخی فیصلے کے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز کریں، جہاں کشمیر سمیت پاکستان اور خالصتان شانہ بشانہ خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوں!