سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ زمین کی تاریخ میں براعظم کئی بار آپس میں ٹکرا کر ’سپر کانٹی ننٹ‘ یا عظیم براعظم کی شکل اختیار کرتے رہے ہیں، اور ایک بار پھر ایسا ہونے والا ہے۔
زمین کا موجودہ جغرافیہ لاکھوں برس کے ارضیاتی عمل کا نتیجہ ہے براعظموں کی حرکت، سمندروں کا پھیلاؤ اور سکڑاؤ، اور پلیٹ ٹیکٹونکس جیسے قدرتی عوامل زمین کے چہرے کو مسلسل بدلتے رہتے ہیں،آسٹریلیا کی کرٹِن یونیورسٹی اور چین کی پیکنگ یونیورسٹی کے ماہرینِ ار ضیات نے جدید سپر کمپیوٹر ماڈلز کی مدد سے یہ پیشگوئی کی ہے کہ آئندہ 200 سے 300 ملین سالوں میں زمین پر ایک نیا عظیم براعظم، جسے ’امیشیا‘ کا نام دیا گیا ہے، وجود میں آ سکتا ہے۔
معروف سائنسی جریدے ’نیشنل سائنس ریویو‘ میں شائع تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بحرالکاہل (Pacific Ocean) جو زمین کا قدیم ترین سمندر ہے، بتدریج سکڑ رہا ہے اور بالآخر بند ہو سکتا ہے اس عمل کے نتیجے میں موجودہ براعظم آپس میں ٹکرا کر ایک نیا عظیم براعظم بنا سکتے ہیں۔
کرٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر چوان ہوانگ کے مطابق گزشتہ دو ارب سال میں ہر تقریباً 600 ملین سال بعد براعظم ایک دوسرے سے ٹکرا کر ایک سپر کانٹی ننٹ بناتے رہے ہیں، اور اس حساب سے اگلا عظیم براعظم بننے کا وقت قریب آ چکا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر بحرالکاہل بند ہو گیا تو امریکا اور ایشیا کا آپس میں تصادم ہوگا، جو ’امیشیا‘ کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرے گا دلچسپ بات یہ ہے کہ آسٹریلیا بھی اس عمل میں اہم کردار ادا کرے گا توقع ہے کہ آسٹریلیا پہلے ایشیا سے ٹکرائے گا اور پھر امریکہ و ایشیا کے درمیان پل کا کردار ادا کرے گا۔
ڈاکٹر ہوانگ کا مزید کہنا ہے کہ ہم نے سپر کمپیوٹر کے ذریعے زمین کی پلیٹوں کی حرکت کا ماڈل تیار کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بحرالکاہل کے بند ہونے کا امکان سب سے زیادہ ہے، جو کہ ماضی کی کچھ سائنسی تھیوریز کے برخلاف ہے۔‘
واضح رہے کہ بحرالکاہل دراصل پان تھالاسا (Panthalassa) نامی قدیم عظیم سمندر کا بچا ہوا حصہ ہے، جو تقریباً 700 ملین سال پہلے وجود میں آیا تھا، اور اس کے سکڑنے کا عمل ڈائناسور کے دور سے جاری ہے۔