"مجھے محبت سے پیار ہے
محبت کو مجھ سے محبت ہے۔ میرا جسم میری روح سے پیار کرتا ہے،
اور میری روح مجھ سے پیار کرتی ہے۔
ہم پیار کرنے میں باریاں لیتے ہیں۔”
رومی

رومی کے گہرے الفاظ محبت کی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ نہ صرف افراد کے درمیان تعلق کے طور پر، بلکہ خود کی دریافت کی طرف سفر کے اعتبار سے بھی۔ محبت، اپنی خالص ترین شکل میں، ہمارے وجود کے جسمانی اور روحانی دونوں پہلوؤں پر محیط ہے۔ جسم اور روح کا آپس میں ملنا خدا کے اس ارادے کا ثبوت بن جاتا ہے، کہ وہ محبت سے ہم آہنگی پیدا کرے۔

دوسروں سے صحیح معنوں میں محبت کرنے کے لیے، سب سے پہلے خود سے محبت کا سفر شروع کرنا چاہیے۔ یہ ایک ایسی قوت جو اپنی روح کی پہچان کراتی ہے۔ اس خود شناسی میں ہمارے روزمرہ کے اعمال کا تجزیہ کرنا، اور اچھے اور برے میں تفریق کرنا شامل ہے۔ اس کے ذریعے ہم ایک دوسرے کے لیے غیر مشروط محبت کو فروغ دیتے ہوئے، اللہ کے قریب، اور اپنی مشترکہ انسانیت کے قریب آتے ہیں۔

بعض اوقات غیر متوقع روابط، قطع نظر ان کی نوعیت کے، خود آگاہی کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ رابطہ، چاہے کسی بھی رنگ میں ہو، ہمیں اپنے جذبات اور خواہشات پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ ہمیں زندگی کی مشکلات، بشمول نئے تعلقات کی تشکیل کے متعلق ہمارے نقطہ نظر پر سوال کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جب ہم خود سے محبت کی بات کرتے ہیں، تو اس میں جسمانی اور روحانی دونوں جہتیں شامل ہوتی ہیں۔ کیا ہم واقعی اپنے آپ سے محبت کر سکتے ہیں، اگر ہم ایک کو دوسرے کے حق میں نظرانداز کریں؟ اسی طرح، کیا کوئی بامعنی رشتہ کسی شخص کی روح کی گہرائیوں، اس کے وجود کے جوہر میں جائے بغیر قائم کیا جا سکتا ہے؟ روح سے محبت کیے بغیر، کیا جسم کی محبت صرف ہوس نہیں ہے کیا؟

مختصراً، محبت کے سفر میں ہمارے وجود کے ٹھوس اور غیر محسوس دونوں پہلوؤں کو اپنانا شامل ہے۔ جسم اور روح کے باہمی ربط کو تسلیم کرتے ہوئے، ہم اپنے آپ کو محبت کے خدائی مقصد سے ہم آہنگ کرلیتے ہیں۔ یہ سمجھ نہ صرف دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات کو تقویت بخشتی ہے، بلکہ اپنے ساتھ، اور بالآخر خداوند کے ساتھ گہرے تعلق کو بھی پروان چڑھاتی ہے۔
یہ سمجھ ایک نئی زندگی ہے۔

Shares: