جلد ڈالر کے بھوکے اسمگلرز کی حکومت کا خاتمہ
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
افغانستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ طالبان حکومت جو اگست 2021 میں اقتدار میں آئی تھی، دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ تین سال گزرنے کے باوجود طالبان نہ کوئی باقاعدہ حکومت قائم کر سکے ہیں اور نہ ہی انتخابات کرا سکے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی حکمرانی کی بنیادیں ہلنے لگی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں طالبان حکومت کو اندرونی اختلافات، خراب معیشت، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بیرونی دباؤ اور پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان سے کشیدگی جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ تمام حالات مل کر طالبان کی حکومت کو زوال کے دہانے پر لے آئے ہیں جو نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔

طالبان کے اندرونی اختلافات ان کی حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن گئے ہیں۔ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے درمیان طاقت کی کشمکش شدت اختیار کر چکی ہے۔ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں طالبان کے ہر ماہ تقریباً سو جنگجو مارے جا رہے ہیں، جس سے طالبان کے اندر بے چینی اور بغاوت کے آثار پیدا ہو گئے ہیں۔ اخوندزادہ نے اقتدار کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن اس سے ناراضگی بڑھ رہی ہے۔ طالبان حکومت میں بدعنوانی، طاقت کا غلط استعمال اور عوامی مسائل سے لاتعلقی نے عام لوگوں میں مایوسی پیدا کر دی ہے۔ کئی طالبان کمانڈر اب اپنے دھڑے بنانے کی سوچ رہے ہیں۔ افغان تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ایسی اندرونی تقسیم پیدا ہوئی، حکومت زیادہ دیر نہیں چل سکی۔

افغانستان کی معیشت پہلے ہی تباہی کے دہانے پر ہے۔ طالبان حکومت بیرونی امداد پر انحصار کرتی رہی ہے لیکن اب دنیا کے ممالک نے امداد بند کر دی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق افغانستان کی معیشت تیزی سے گر رہی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ طالبان نے اب تک کوئی ٹھوس معاشی منصوبہ نہیں بنایااور منشیات کی اسمگلنگ سمیت غیر قانونی تجارت بڑھ گئی ہے۔ اسی وجہ سے طالبان کو “ڈالر کے بھوکے اسمگلرز” کہا جانے لگا ہے۔ زلزلوں اور قدرتی آفات نے بھی عوامی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ بجلی، پانی، صحت اور خوراک جیسی بنیادی سہولتیں ناپید ہو چکی ہیں۔ بھوک اور افلاس نے عوام کو طالبان سے متنفر کر دیا ہے اور یہ عوامی غصہ کسی بھی وقت بغاوت میں بدل سکتا ہے۔

طالبان کی خواتین کے خلاف سخت پالیسیوں نے ان کی حکومت کو دنیا بھر میں تنہا کر دیا ہے۔ لڑکیوں کے سکول اور یونیورسٹیاں بند کر دی گئی ہیں، خواتین کو دفاتر اور امدادی اداروں میں کام سے روک دیا گیا ہے اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ان اقدامات سے افغان معاشرہ تقسیم ہو گیا ہے۔ عالمی برادری نے ان پابندیوں کی سخت مذمت کی ہے اور زیادہ تر ممالک نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور شریعت کے نام پر ظلم و جبر کے باعث عوام کے اندر طالبان کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے۔

پاکستان کے ساتھ طالبان کے تعلقات بھی اب تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپیں، فضائی حملے اور ایک دوسرے پر دہشت گرد گروہوں کو پناہ دینے کے الزامات روز بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان طالبان پر تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو سہولت فراہم کرنے کا الزام نہیں لگاتا ہے بلکہ ثبوت دئےمگر طالبان حکومت ان گروہوں کی پشت پناہی اور بھارتی پراکسیز کیلئے استعمال کررہی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان نے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ ان حالات نے طالبان کو دفاعی پوزیشن پر دھکیل دیا ہے اور وہ اندرونی و بیرونی دونوں دباؤ میں آ چکے ہیں۔

پاکستان وہ ملک ہے جس نے طالبان کو شروع دن سے سہارا دیا۔ 1990 کی دہائی سے لے کر 2021 تک پاکستان نے طالبان کی سیاسی، سفارتی اور فوجی مدد کی۔ مگر اب حالات بدل گئے ہیں۔ طالبان نے پاکستان کے مخالف ملک بھارت سے ڈالرز کے عوض ہاتھ ملالیاہے۔ 10 اکتوبر 2025 کو طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے بھارت کا دورہ کیا اور بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کی۔ اس موقع پر متقی نے پاکستان کے خلاف سخت بیانات دیے، یہاں تک کہا کہ “پاکستان کو افغانستان کے ساتھ کھیل کھیلنے سے گریز کرنا چاہیے”۔ یہ بیان دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی کا باعث بنا۔

طالبان کی غلط پالیسیوں کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کو ملک سے نکالنا شروع کر دیا ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین سرحد پار کر کے واپس افغانستان جا رہے ہیں، لیکن طالبان حکومت ان کی بحالی، روزگار اور بنیادی سہولتوں کے انتظام میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ ان مہاجرین کی واپسی طالبان کے لیے نیا بحران بن چکی ہے، کیونکہ ان میں سے کئی لوگ طالبان مخالف قوتوں سے دوبارہ جڑنے لگے ہیں۔ اب اطلاعات یہ ہیں کہ طالبان مخالف جنگجو گروہ دوبارہ متحد ہو رہے ہیں اور شمالی اتحاد کی طرز پر ایک نئے محاذ کی تیاری کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہی قوتیں طالبان حکومت کے خاتمے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہیں۔

طالبان حکومت اس وقت ہر طرف سے دباؤ میں ہے، اندرونی لڑائیاں، خراب معیشت، عوامی غم وغصہ، خواتین پر ظلم، ہمسایہ ممالک سے دشمنی اور عالمی تنہائی۔ جب کوئی حکومت عوام کا اعتماد کھو دیتی ہے اور اپنے پڑوسیوں سے تعلقات خراب کر لیتی ہے تو اس کا زوال صرف وقت کی بات رہ جاتا ہے۔ اوراس وقت ڈالروں کے بھوکے اسمگلرز طالبان کے اقتدار کا انجام قریب دکھائی دے رہا ہے۔

Shares: