سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا
تحریر:عبداللہ راؤ
ایک طرف ملک مہنگائی کے طوفان میں گھرا ہوا ہے، تو دوسری طرف تمباکو نوشی جیسے مہلک عادتیں غریب اور متوسط طبقے کو خاموشی سے نگل رہی ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جو شخص دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے، وہ دن بھر کی مزدوری کے بعد ایک سگریٹ کا دھواں اپنے پھیپھڑوں میں اتار کر سکون ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے، مگر یہ سکون وقتی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے، کیونکہ یہی دھواں اسے آہستہ آہستہ موت کی طرف لے جا رہا ہے۔
ہر سال لاکھوں افراد تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ دل، پھیپھڑوں، منہ اور حلق کے کینسر جیسے موذی امراض کا ایک بڑا سبب سگریٹ نوشی ہے، جو نہ صرف فرد کی صحت بلکہ اس کے خاندان کی معاشی حالت کو بھی تباہ کر دیتی ہے۔ ایسے میں اگر سگریٹ پر بھاری ٹیکس لگا دیا جائے، تو یہ ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔ جب سگریٹ مہنگی ہوگی تو کم آمدنی والے افراد کے لیے اسے خریدنا مشکل ہو جائے گا۔ نتیجتاً نوجوان اور غریب طبقہ اس زہر سے دور رہنے پر مجبور ہوگا۔ یاد رکھیں، یہ صرف ایک مالیاتی قدم نہیں، بلکہ ایک سماجی اصلاح ہے ، ایک خاموش مگر مؤثر انقلاب،
نقاد کہیں گے کہ ٹیکس سے حکومتی آمدن بڑھے گی مگر غریب مزید پس جائے گا۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سگریٹ پر ٹیکس لگانا دراصل غریب کو بچانا ہے۔ اسے بیماری، بھاری میڈیکل بلز اور قبل از وقت موت سے محفوظ رکھنا ہے۔ ایک سگریٹ مہنگی ضرور ہو گی، مگر شاید اسی مہنگائی کے سبب کسی کا باپ، بھائی یا بیٹا موت کے منہ میں جانے سے بچ جائے۔ اس 31 مئی کو ہمیں صرف تقاریر نہیں کرنی بلکہ عملی اقدامات کی حمایت کرنی ہے۔
تمباکو نوشی کے خلاف مؤثر قانون سازی، سگریٹ پر بھاری ٹیکس اور تمباکو مصنوعات کی تشہیر پر مکمل پابندی ہی وہ راستے ہیں جو ہمیں ایک صحت مند، خوشحال اور سگریٹ فری پاکستان کی طرف لے جا سکتے ہیں،کیونکہ جب سگریٹ پر ٹیکس لگے گا، تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا اور یہی دوری، زندگی کی نزدیکی ہے۔