سگریٹ پر ٹیکس لگے گا، غریب کی پہنچ سے دور ہوگی
تحریر: حبیب خان، نامہ نگار باغی ٹی وی اوچ شریف
ہر سال 31 مئی کو پوری دنیا میں عالمی یومِ تمباکو نوشی منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تمباکو نوشی کوئی معمولی عادت نہیں، بلکہ ایک خاموش قاتل ہے جو لاکھوں زندگیاں برباد کر رہا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں تمباکو نوشی کے باعث ہر سال کروڑوں افراد اپنی جان گنواتے ہیں، اور ہمارے نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ تمباکو کمپنیاں بڑے دھوکے اور فریب کے ذریعے نوجوانوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ وہ انہیں آزادی، اسٹائل اور بغاوت کے نعرے دے کر موت کا زہر بیچتی ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر پکڑا گیا سگریٹ، ہر چلایا گیا ویپ، ہر چبایا گیا گٹکا، ہمارے نوجوانوں کی صحت، ان کے خواب، اور ہمارے مستقبل کو برباد کر رہا ہے۔ دنیا میں ہر روز بے شمار لوگ آنکھیں بند کرتے ہیں لیکن کچھ اموات حادثہ نہیں ہوتیں ، وہ خود ساختہ ہوتی ہیں۔

تمباکو نوشی انہی "سست زہروں” میں سے ایک ہے جو ہر سانس کے ساتھ انسان کو موت کے قریب لے جاتی ہے۔ یہ صرف ایک سگریٹ نہیں، یہ ایک چپ چاپ قتل ہے ، جو ہاتھوں میں سلگتی ہے، اور اندر ہی اندر جسم، ذہن اور روح کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر سال 80 لاکھ سے زائد افراد تمباکو نوشی سے متعلق بیماریوں کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا "قابلِ گریز” المیہ ہے، جسے صرف بیداری، قانون سازی اور سنجیدہ اقدامات سے روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان، جہاں صحت کے وسائل پہلے ہی محدود ہیں، ان مہلک اثرات کی لپیٹ میں تیزی سے آ رہا ہے۔

چین، پاپوا نیو گنی اور نائجیریا کے بعد پاکستان کا چوتھے نمبر پر آ جانا ایک قومی سانحہ ہے۔ جس پر اگر اب بھی خاموشی رہی، تو انجام ناقابلِ تصور ہو گا۔ سلگتی سگریٹ سے آج کی نوجوان نسل کا زوال ہو گیا ہے۔ تمباکو کمپنیاں کامیاب، ہم ناکام؟ نوجوان وہ بنیاد ہوتے ہیں جن پر قوموں کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ مگر افسوس، انہی ہاتھوں میں سگریٹ، ویپ، حقہ، گٹکا اور نسوار تھما دی گئی ہے۔

تمباکو کمپنیاں جانتی ہیں کہ نوجوان ان کا "منافع بخش ہدف” ہیں۔ وہ اشتہارات میں "آزادی”، "بغاوت” اور "شخصیت” کے نام پر زہر بیچتے ہیں. اور نوجوان؟ وہ سمجھتے ہیں کہ سگریٹ پکڑنا مردانگی ہے، ویپ کرنا اسٹائل ہے، اور گٹکا کھانا روایت ہے۔

یہ فکری زہر ہے ، جو جسمانی زہر سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کبھی تم نے جلتی ہوئی سگریٹ کو غور سے دیکھا ہے؟ وہ دھیرے دھیرے خود کو راکھ میں بدلتی ہے . بالکل ویسے ہی جیسے ایک انسان تمباکو نوشی کا عادی ہو کر خود کو ختم کرتا ہے۔ لیکن فرق صرف یہ ہے کہ سگریٹ کی راکھ زمین پر گرتی ہے، انسان کی راکھ کسی ماں کی گود، کسی بچے کی امید، یا کسی قوم کے مستقبل پر۔

یہ کیسی عادت ہے جسے ہم "اپنی مرضی” کہتے ہیں، مگر درحقیقت یہ ایسی غلامی ہے جس کی زنجیر ہم نے خود پہنی ہے؟ تمباکو نہ فقط جسم کو بیمار کرتا ہے بلکہ سوچ کو مفلوج، ارادے کو کمزور اور انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا نشہ ہے جس کا نشہ صرف چند لمحے ہوتا ہے، اور نقصان عمر بھر۔

آج جب تم کسی نوجوان کو ویپ یا سگریٹ پکڑے دیکھتے ہو تو یہ مت سمجھو کہ وہ صرف دھواں اڑا رہا ہے ، وہ اپنی سانسیں، اپنی صحت، اپنے خواب اور اپنے خاندان کی خوشیاں بھی جلا رہا ہے۔ تمباکو کمپنیاں یہ جانتی ہیں کہ نوجوان ان کے سب سے نفع بخش شکار ہیں، اسی لیے وہ اشتہارات میں خوشنما وعدے اور جھوٹے خواب بیچتی ہیں اور بدلے میں موت کا سودا کر لیتی ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس دھوکے کو پہچانتے ہیں؟ کیا ہمارا میڈیا، ہمارے ادارے، اور ہماری قیادت اس سازش کو بے نقاب کرتی ہے؟ اکثر نہیں ، لیکن باغی ٹی وی ان گنت چینلز میں وہ واحد صدا ہے جو نہ بکتی ہے، نہ جھکتی ہے۔

باغی ٹی وی صرف خبروں کا ادارہ نہیں، یہ ضمیر کی آواز ہے، بیداری کی چنگاری ہے، جو تمباکو نوشی کے خلاف ایک ایسی بغاوت چھیڑ چکا ہے جس کا ہدف صرف "خبریں دینا” نہیں بلکہ زندگیاں بچانا ہے۔ کرومیٹک کے ساتھ ان کی مشترکہ جدوجہد صرف مہم نہیں، ایک تحریک ہے۔ ایک ایسا قافلہ جو دہلیز دہلیز جا کر کہہ رہا ہے:
"اب مزید کوئی بچہ، کوئی نوجوان، تمباکو کی بھینٹ نہ چڑھے!”

انہوں نے دکھایا کہ سستا سگریٹ دراصل مہنگی موت ہے اور شعور ہی واحد بچاؤ ہے۔ ہمیں اب خاموشی نہیں، آواز بننا ہے۔ تمباکو کے خلاف یہ جنگ صرف باغی ٹی وی کی نہیں، ہر اُس ماں کی ہے جس نے بیٹے کو کھانستے دیکھا، ہر اُس بیوی کی ہے جس نے شوہر کو ہسپتال کے بستر پر تڑپتے دیکھا اور ہر اُس قوم کی ہے جو زندہ رہنا چاہتی ہے۔

آو قلم کو تلوار، زبان کو آواز، اور عمل کو ہتھیار بنائیں۔
ہم تمباکو کی ہر شکل کو رد کریں گے۔
ہم اس دھوئیں سے زندگی کو چھین کر واپس لائیں گے۔
ہم نسلوں کو بچائیں گے، کیونکہ زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی، مگر اگر ہم نے آنکھ نہ کھولی… تو شاید جلد ہو جائے گی۔

آؤ، عہد کریں:
ہم تمباکو نہیں، صحت کا انتخاب کریں گے۔
ہم خاموش نہیں، بیدار ہوں گے۔
ہم باغی ٹی وی کی آواز بن کر، تمباکو کی ہر شکل کو مسترد کریں گے۔
کیونکہ سانس وہی قیمتی ہوتی ہے، جو دھوئیں کے بغیر لی جائے۔

Shares: