سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا
تحریر :سیدریاض جاذب
ہر سال 31 مئی کو دنیا بھر میں ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے منایا جاتا ہے، جس کا مقصد تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے آگاہی پیدا کرنا اور تمباکو کے استعمال میں کمی لانے کے لیے مؤثر اقدامات کی ترغیب دینا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے اس سال کی جو تھیم مقرر کی ہے وہ بھی انتہائی اہم ہے اس سال کی تھیم ہے کہ”تمباکو پر صنعتی حربوں کو بے نقاب کرنا”
اس تھیم کا مقصد تمباکو اور نکوٹین مصنوعات کی صنعتوں کی ان چالاکیوں کو بے نقاب کرنا ہے، جن کے ذریعے وہ خاص طور پر نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔ ان میں خوشبودار فلیورز، دلکش پیکیجنگ، اور سوشل میڈیا پر پرکشش تشہیر شامل ہیں، جو ان مصنوعات کو بے ضرر ظاہر کرتی ہیں، حالانکہ یہ صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔
اگرچہ عالمی اداروہ صحت کی تھیم یہی ہے تاہم ہمارا موضوع ہے”سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا”
نئے مالی سال 2025–26 کے بجٹ میں سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) میں اضافے کا واضح امکان ہے، کیونکہ عالمی ادارہ صحت (WHO) اور دیگر صحت کے ماہرین حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے نمٹنے کے لیے ٹیکس میں اضافہ کیا جائے۔
تجویز ہے کہ فی سگریٹ پیک پر FED میں 39 روپے کا اضافہ کیا جائے۔ اس اقدام سے متوقع ہے کہ سگریٹ نوشی میں 6.9% کمی آئے گی اور
تقریباً 263,000 افراد سگریٹ نوشی ترک کریں گے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس اقدام سے 264,000 قبل از وقت اموات سے بچا جا سکے گا۔
سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر (SPDC) اور سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (SPARC)کے مطابق اس اقدام سےحکومتی آمدنی میں بھی 67.4 ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔
پاکستان میں سگریٹ پر دو سطحی ٹیکس نظام رائج ہے، جس میں نان پریمیم برانڈز پر کم اور پریمیم برانڈز پر زیادہ ٹیکس عائد ہے۔ یہ فرق 229 روپے فی پیک تک ہے، یہ فرق غریب تمباکو نوش کو سستی برانڈز کی طرف منتقل ہونے پر مجبور کرتا ہے، اور تمباکو نوشی میں کمی کے اقدامات کو کمزور کرتا ہے جس سے سگریٹ غریب کی پہنچ سے دور نہیں ہوپاتا ۔اس لیے لازمی ہے کہ سگریٹ پر بھاری ٹیکس لگایا جائے تاکہ سگریٹ غریب کی پہنچ سے دور رہے۔
اس تناظر میں یہ کہا جارہا ہے کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں سگریٹ پر ٹیکس میں اضافہ متوقع ہے، جس کا مقصد صحت عامہ کی بہتری اور حکومتی آمدنی میں اضافہ ہے اورسگریٹ کو غریب کی پہنچ سے دور رکھنا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ تمباکو نوشی صرف ایک شخص کی صحت کو متاثر نہیں کرتی بلکہ اس کے خاندان، خاص طور پر بچوں پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ گھر میں تمباکو نوشی کرنے والے والدین کے بچے بھی بالواسطہ طور پر دھوئیں کا شکار ہو کر کئی بیماریوں کا سامنا کرتے ہیں، جن میں دمہ، سانس کی بیماریاں اور کمزور قوتِ مدافعت شامل ہیں۔ اگر سگریٹ مہنگے ہو جائیں اور لوگ اس عادت کو ترک کریں، تو اس سے نہ صرف فردِ واحد بلکہ پورا خاندان محفوظ رہ سکتا ہے۔
ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اگر صحت کے شعبے پر خرچ کیا جائے، خاص طور پر تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج کے لیے، تو یہ ایک دوہرا فائدہ فراہم کرے گا۔ نہ صرف تمباکو نوشی کی شرح میں کمی آئے گی بلکہ صحت عامہ کی سہولیات بھی بہتر ہوں گی۔ حکومت کو چاہیے کہ سگریٹ پر ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو صحت، تعلیم اور تمباکو سے بچاؤ کی مہمات پر خرچ کرنے کے لیے مختص کرے، تاکہ عوام کو اس اقدام کا براہِ راست فائدہ پہنچے۔
ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ تمباکو کی صنعت غریب طبقے کو نشانہ بنانے کے لیے مارکیٹنگ کے ایسے طریقے اختیار کرتی ہے جو ان کے معاشی حالات اور نفسیاتی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سستے داموں سگریٹ، مفت نمونے، یا دکانوں پر نمایاں جگہوں پر اشتہارات کے ذریعے تمباکو کی مصنوعات کو آسانی سے دستیاب اور پرکشش بنایا جاتا ہے۔ اگر حکومت سخت ٹیکس پالیسی کے ساتھ ساتھ تمباکو کی تشہیر، فروخت اور دستیابی پر بھی سخت ضابطے نافذ کرے تو غریب اور نوجوان طبقے کو اس خطرناک لت سے بچایا جا سکتا ہے۔ یہ اقدامات تمباکو کے خلاف ایک جامع حکمت عملی کا حصہ بن سکتے ہیں۔
سگریٹ پر ٹیکس بڑھایا جاتا ہے تو اس کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے، اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اس سے غریب طبقے کے لیے سگریٹ خریدنا مشکل ہو سکتا ہے یا ان کی پہنچ سے دور ہو سکتا ہے۔
کم آمدنی والے افراد اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ سگریٹ نوشی پر خرچ کرتے ہیں اور قیمت بڑھنے سے ان کے اپنے بجٹ پر مزید دباؤ پڑتا ہے۔ اس پر پالیسی سازوں کو غور کرنا چاہیے اور کوئی ٹھوس مربوط پالیسی اپنانی چاہیے۔