سگریٹ پر ٹیکس لگے گا، غریب کی پہنچ سے دور ہوگی
تحریر: ممتاز خان کھوسہ
سگریٹ نوشی ایک ایسا ناسور ہے جو نہ صرف فرد کی صحت کو تباہ کرتا ہے بلکہ خاندان، معاشرے اور معیشت پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں تمباکو نوشی کے خلاف مختلف اقدامات کرتی آئی ہیں، جن میں نمایاں ترین قدم سگریٹ پر بھاری ٹیکس عائد کرنا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان میں بھی یہی پالیسی زیرِ غور ہے کہ سگریٹ پر مزید ٹیکس لگایا جائے تاکہ تمباکو مصنوعات عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو جائیں۔
مگر اس پالیسی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے صرف غریب طبقہ متاثر ہوگا، کیونکہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھنے سے قیمتیں بڑھیں گی اور امیر طبقہ تو پھر بھی خرید سکتا ہے، جبکہ غریب کے لیے یہ شے "لگژری” بن جائے گی۔ اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ سگریٹ "ضرورت” نہیں بلکہ "عادت” ہے، اور اگر یہ عادت کسی پالیسی سے چھوٹ جائے تو وہ پالیسیاں معاشرتی بھلائی کے لیے ضروری ہیں۔
سگریٹ نوشی صحت کا دشمن ہے۔ پھیپھڑوں کا کینسر، دل کی بیماریاں، سانس کی تکالیف اور دیگر مہلک امراض اسی ایک عادت سے جنم لیتے ہیں۔ ان بیماریوں کا علاج بھی مہنگا ہے، اور سب سے زیادہ نقصان انہی غریبوں کو ہوتا ہے جو نہ تو مکمل علاج کروا سکتے ہیں، نہ ہی بیماری کی حالت میں اپنا گھر چلا سکتے ہیں۔ یوں سگریٹ ایک غریب کو بظاہر وقتی تسکین دیتا ہے مگر انجام میں اسے مزید غربت کی گہرائی میں دھکیل دیتا ہے۔
ٹیکس کا مقصد آمدن اکٹھی کرنا نہیں بلکہ رویوں میں تبدیلی لانا ہے۔ اگر سگریٹ مہنگی ہو جائے تو نئے نوجوانوں کا اس لت میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ پہلے سے اس عادت میں مبتلا ہیں، ان کے لیے ترک کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے، جب قیمت جیب سے باہر ہو۔
یہ کہنا کہ ٹیکس صرف غریب کو متاثر کرے گا، ایک سطحی دلیل ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ غریب طبقہ ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جب وہ صحت سے جڑی خراب عادات کا شکار ہوتا ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیوں سے تمباکو کی عادت کم ہو جائے تو یہ غریب کے لیے کسی سزا نہیں بلکہ انعام کی مانند ہے۔ اس کے بچے، اس کا گھر اور اس کا مستقبل اس عادت سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
لہٰذا، سگریٹ پر ٹیکس لگانا ایک مثبت اور دور رس پالیسی ہے جو تمباکو نوشی کے خلاف جنگ میں ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمیں بطور معاشرہ اس کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ ہم ایک صحت مند، باشعور اور خوشحال پاکستان کی جانب قدم بڑھا سکیں۔