صوبہ pkp میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی شیڈول کا اعلان ہوتے ہی گلی محلوں اور بازاروں کیساتھ ڈراٸنگ رومز کی رونقیں بحال ہونا شروع ہوگٸی ہیں۔ایک طرف پارٹی ٹکٹ کے امیدوار مخصوص آستانوں کا طواف جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف آذاد امیدواروں کی فوج مظفر اپنی پھرتیاں جاری رکھے ہوۓ ہے۔ملک کی معروف پارٹی کا نعرہ ہے "ہر گھر سے بھٹو نکلے گا”۔آنیوالے بلدیاتی الیکشن کے دوران پارٹی کا نعرہ متاثر ہوتا دکھاٸی دے رہا ہے۔اب ہر گھر سے بھٹو کی بجاۓ امیدوار نکلے گا تم کس کس امیدوار کو روکو گۓ؟
ایک زمانے میں پنجابی کا گیت بہت مقبول ہوا تھا جس کے بول کچھ اسطرح کے تھے "کنے کنے جانڑیں بلو دے گھر۔لینڑ بڑاٶ ٹکٹ کٹاٶ”۔ٹکٹ کی اہمیت کا اندازہ اس گانے سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔بلو کے گھر تک جانے کیلیے اگر ٹکٹ کی شرط پوری کرنا ضروری ہے تو پھر سیاست میں ٹکٹ کی اہمیت کو کیونکر نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ٹکٹ چاہے بمبینو سینما گھر کا ہو یا خیبر میل کا۔ ہواٸی جہاز کا ٹکٹ ہو یا میٹرو بس کا۔۔ٹکٹ کے بغیر زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی۔خط وکتابت کیلیے بھی ٹکٹ کا ہونا لازم ہے ۔ ٹکٹ جس رنگ اور شکل میں بھی ہو اپنی پہچان خود رکھتا ہے لیکن سیاسی ٹکٹ کی الگ ہی حیثیت ہے۔ کٸی امیدواروں کی تو ٹکٹوں نے نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور جب تک پارٹی کا ثکٹ تعویذ بنا کر انکے گلے میں نہیں لٹکایا جاتا اسوقت تک انکی بے چینی دور نہیں ہوسکتی۔اس سے پہلے ٹکٹوں کی تقسیم اتنی مشکل نہیں ہوا کرتی تھی لیکن جس طرح زمانے کے طور طریقے بدلے ہیں اسی طرح سیاست کے اندازورواج بھی بدل گۓ ہیں۔
پہلے مرحلے کے انتخابات میں پی ٹی آٸی کے ٹکٹ ہولڈروں کو منہ کی کھانی پڑی جس میں دیگر پارٹیوں کے ٹکٹ ہولڈر بھی شامل تھے۔ریل گاڑی کا ٹکٹ منزل مقصود تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتا ہے لیکن بے وفا دوست کی طرح پارٹی ٹکٹ کا کوٸی بھروسہ نہیں ہوتا ۔بہت سے سیاسی شہزادوں کے گلے میں پارٹی ٹکٹ ہونے کے باوجود انہیں عبرتناک شکست سے دوچار ہوتے اور پچھتاوے کے آنسو روتے دیکھا گیا ہے لیکن پھر بھی پارٹی ٹکٹ کے متوالوں کا جنون کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔مسلم لیگ ن۔جمیعت علما اسلام اور پی ٹی آٸی کے ٹکٹ کیلیے مارے مارے پھرنے والے امیدواروں کے حوصلوں کو سلام پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔سیاسی عاملوں کے آستانوں پر حاضری در حاضری کے باوجود دلی مرادیں پوری ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔
پی ٹی آٸی نے تو پہلے مرحلے کے الیکشن میں عبرتناک شکست کی چوٹ کھانے کے بعد اگلے مرحلے کیلیے نیا لاٸحہ عمل مرتب کیا ہے جس کے تحت پارٹی رہنماوں کے قریبی رشتہ داروں کو ٹکٹ دینے کی بجائے پیدل سفر کا پروانہ جاری کیا گیا ہے جسکے نتیجے میں کچھ امیدوار اعصابی دباٶ کا شکار ہوچکے ہیں اور انہوں نے شیروانیوں کے آرڈر بھی منسوخ کردٸیے ہیں۔مسلم لیگ اور جمیعت کے درمیان اتحاد کی صورت میں ٹکٹ کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ایسی صورت میں پی ٹی آٸی کو پہلے مرحلے کے انتخابات سے بھی ذیادہ ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ابھی ٹکٹوں کی بولی کا مرحلہ بھی باقی ہے۔اس سلسلے میں بولی دہندگان اپنی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہیں۔دوسری طرف آذاد امیدواروں کی فوج مظفر بھی لنگوٹ کس کر میدان میں اتر چکی ہے۔ٹکٹ کے جھمیلوں سے بے نیاز آذاد امیدواروں کی پھرتیاں الیکشن کی رُت کو چار چاند لگانے میں اہم کردار ادا کرینگی اور اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ بعض آذاد امیدوار بھی بازی پلٹ سکتے ہیں۔ایسی صورت میں ٹکٹ ہولڈر لگنے والے زخم کے اوپر ٹکٹ کی پٹی باندھ کر طویل عرصے تک اسے چاٹتے رہینگے








