ٹرمپ نے سپریم کورٹ سے ٹک ٹاک پر عائد پابندی مؤخر کرنے کی درخواست کی، جبکہ بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایپ کی موجودگی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ ٹک ٹاک پر عائد پابندی کو مؤخر کرے، جو کہ آئندہ ماہ نافذ ہونے والی ہے۔ جمعہ کے روز ایک قانونی دائرہ میں ٹرمپ نے کہا کہ اس پابندی کے نفاذ میں تاخیر سے ان کی انتظامیہ کو "مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے” کا موقع ملے گا۔ٹرمپ کی یہ درخواست بائیڈن انتظامیہ کے موقف سے متصادم ہے، جس نے جمعہ کو اپنے مؤقف میں ٹک ٹاک کی موجودگی کو امریکی قومی سلامتی کے لیے "سنگین” خطرہ قرار دیا۔ بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک چین کی کمپنی کا حصہ ہے اور اس کی موجودگی امریکی شہریوں کے ذاتی ڈیٹا کے تحفظ اور عالمی سیاست میں چین کے مفادات کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔

یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں اس وقت ایک اہم معاملہ بن چکا ہے کہ آیا اپریل میں کانگریس کے منظور کردہ ٹک ٹاک پر پابندی کے قانون سے امریکی آئین کے پہلے ترمیم (آزادی اظہار) کی خلاف ورزی ہوتی ہے یا نہیں۔ عدالت نے 10 جنوری کو اس مقدمے کی سماعت کے لیے دو گھنٹے مختص کیے ہیں۔سپریم کورٹ میں جمعہ کے روز اس مقدمے پر مختلف گروپوں اور حکام کی طرف سے دو درجن سے زیادہ قانونی مؤقف درج کیے گئے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ اس مقدمے میں فریق نہیں ہیں، تاہم انہوں نے "دوست عدالت” کی حیثیت سے اپنا مؤقف سپریم کورٹ میں پیش کیا ہے، جس میں انہوں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ ٹک ٹاک پر عائد پابندی کے نفاذ کی تاریخ کو مؤخر کرے تاکہ ان کی آنے والی انتظامیہ اس مسئلے کا کوئی مذاکراتی حل تلاش کر سکے۔

اپنی قانونی درخواست میں ٹرمپ نے اس مقدمے میں آئین کے پہلے ترمیمی سوالات پر کوئی موقف اختیار نہیں کیا، لیکن انہوں نے عدالت سے اپیل کی ہے کہ وہ پابندی کے نفاذ کی تاریخ 19 جنوری تک مؤخر کرے تاکہ ان کی انتظامیہ ٹک ٹاک کے معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر سکے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس تاخیر سے امریکہ میں ٹک ٹاک کی مکمل بندش کو روکا جا سکے گا اور امریکی شہریوں کے آئینی حقوق کو بچایا جا سکے گا۔ٹرمپ نے اپنے مؤقف میں مزید کہا کہ وہ اپنے "قوی انتخابی مینڈیٹ” کے تحت اس معاملے کو حل کرنے کے لیے خاص طور پر اہل ہیں اور انہوں نے خود کو سوشل میڈیا کا ایک "انتہائی طاقتور، کامیاب، اور اثر رسوخ رکھنے والا صارف” قرار دیا۔

جمعہ کو بائیڈن انتظامیہ اور سابق امریکی حکام کی ایک بایپارٹیز گروپ نے ٹک ٹاک پر پابندی کے حق میں اپنی قانونی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کروائیں، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ماضی میں ٹرمپ کے تحت کام کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چین کی کمپنی کے ساتھ ٹک ٹاک کے تعلقات امریکی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔انتظامیہ نے عدالت کو بتایا کہ ٹک ٹاک "امریکہ کے لاکھوں شہریوں کا ڈیٹا جمع کرتا ہے”، اور چین "اس ایپ کو خفیہ طور پر اپنے جغرافیائی سیاسی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے”۔ اس کا ایک مقصد امریکہ میں انتشار اور غلط اطلاعات پھیلانا ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے دستاویزات میں قومی سلامتی اور آزادی اظہار کے درمیان موجود کشمکش کو واضح کیا گیا ہے، خصوصاً اس وقت جب 170 ملین امریکی ٹک ٹاک کا استعمال خبریں اور تفریح کے لیے کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی درخواست میں اس بات کو تسلیم کیا کہ ان کی انتظامیہ نے بھی ٹک ٹاک کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا تھا اور 2020 میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کیا تھا، تاہم اس فیصلے کو عدالت نے روک دیا تھا۔ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ قانون کا نفاذ ان کے لیے "بدقسمتی سے وقت کی غیر موزوںیت” پیدا کرتا ہے اور اس سے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو منظم کرنے میں مشکل پیدا ہوگی۔ ٹرمپ نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ اس پابندی کو مؤخر کرے تاکہ ان کی انتظامیہ اس معاملے کا حل تلاش کر سکے، جو نہ صرف قومی سلامتی کی حفاظت کرے بلکہ ٹک ٹاک جیسے مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بھی بچایا جا سکے۔

اب اس مقدمے کی سماعت اور اس کے نتیجے میں آنے والے فیصلے کو امریکہ میں ٹک ٹاک کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو کہ سوشل میڈیا، قومی سلامتی اور آزادی اظہار کے درمیان پیچیدہ تعلقات کو واضح کرے گا۔

Shares: