مزید دیکھیں

مقبول

گوجرانوالہ: پولیس شہداء کی فیملیز کے اعزاز میں افطار ڈنر، تحائف اور شجرکاری مہم کا انعقاد

گوجرانوالہ،باغی ٹی وی(نامہ نگارمحمدرمضان نوشاہی) پولیس لائنز گوجرانوالہ میں...

نوشہرہ، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں خود کش دھماکا،مولانا حامد الحق شہید

نوشہرہ، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک جامع مسجد میں دھماکا...

اداکارہ ریشم کی فٹنس کا راز کیا؟

لاہور:پاکستانی معروف اداکارہ ریشم نے کہا ہے کہ وہ...

ٹائٹینک کا پہلی بار فل سائز ڈیجیٹل اسکین،تصاویر دیکھ کر ماہرین دنگ رہ گئے

ماہرین کی نئی تحقیق میں دنیا کے مشہور ترین بحری جہاز کے ملبے کو اس طرح دکھایا گیا جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

باغی ٹی وی : ٹائٹینک کا پہلا مکمل سائز کا ڈیجیٹل اسکین، جو بحر اوقیانوس میں 3,800m (12,500ft) نیچے ہے، گہرے سمندر کی نقشہ سازی کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہےاس سے پورے جہاز کی منفرد 3 ڈی تصاویر تیار ہوئیں اور ایسا لگتا ہے کہ اردگرد پانی موجود ہی نہیں اور اس کے لیے ڈیپ سی میپنگ ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔

ماہرین کو توقع ہے کہ اس ڈیجیٹل اسکین سے اس بات پر روشنی ڈالنے میں مدد ملے گی آخر جہاز کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا جس کے باعث وہ 1912 میں ڈوب گیا تھا-

1,500 سے زیادہ افراد اس وقت ہلاک ہو گئے جب جہاز اپریل 1912 میں ساؤتھمپٹن(برطانیہ) ​​سے نیویارک(امریکا) جاتے ہوئے اپنے پہلے سفر کے دوران برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوبا تھا،ٹائی ٹینک کے تجزیہ کار پارکس اسٹیفن سن نے بی بی سی نیوز بتایا کہ ابھی بھی اس حادثے کے حوالے سے ایسے متعدد سوالات موجود ہیں جن کے جواب معلوم نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ 3 ڈی ماڈل ٹائی ٹینک کی قیاسات سے ہٹ کر شواہد پر مبنی اصل کہانی سامنے لانے کی جانب پہلا قدم ہے،ڈوبنے کے بعد اس جہاز کا ملبہ بھی ایک معمہ بن گیا تھا اور 7 دہائیوں سے زائد عرصے بعد 1985 میں اسے دریافت کیا گیا تھا۔

1985 میں ملبے کی دریافت کے بعد سے ٹائٹینک کی بڑے پیمانے پر کھوج کی گئی ہے مگر یہ جہاز اتنا بڑا ہے کہ کیمرے اس کی غیر واضح تصاویر ہی کھینچ پاتے ہیں اور پورے ملبے کو تو دکھانا ممکن ہی نہیں،مگر نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے پورے ملبے کو اسکین کرکے اس کا واضح نظارہ دکھایا گیا۔

یہ جہاز 2 حصوں میں تقسیم ہوکر سمندر کی تہہ میں موجود ہے کمان اور سٹرن تقریباً 800m (2,600ft) سے الگ ہیں۔ ٹوٹے ہوئے برتن کے چاروں طرف ملبے کا ایک بہت بڑا ڈھیر ہےیہ اسکین 2022 کے موسم گرما میں میگیلن لمیٹڈ، ایک گہرے سمندر میں نقشہ سازی کرنے والی کمپنی، اور اٹلانٹک پروڈکشنز نے کیا تھا، جو اس منصوبے کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بنا رہے ہیں۔

اس مقصد کے لیے آبدوزوں کی مدد لی گئی جن کو ایک خصوصی جہاز میں سوار ماہرین نے کنٹرول کیا اور 200 گھنٹوں سے زائد وقت تک ملبے کی لمبائی اور چوڑائی کا سروے کیا گیاماہرین نے جہاز کی ہر زاویے سے 7 لاکھ سے زیادہ تصاویر لیں اور پھر ان کی مدد سے 3 ڈی ماڈل تیار کیا۔

میگیلن کے گیرہارڈ سیفرٹ، جنہوں نے اس مہم کی منصوبہ بندی کی، کہا کہ یہ پانی کے اندر سکیننگ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جو اس نے کبھی شروع کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لگ بھگ 4 ہزار میٹر گہرائی میں یہ کام کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں تھا جبکہ ہمیں کسی چیز کو چھونے کی اجازت بھی نہیں تھی کیونکہ اس سے ملبے کو نقصان پہنچ سکتا تھا ان کا کہنا تھا کہ ایک چیلنج یہ بھی تھا کہ جہاز کے ہر اسکوائر سینٹی میٹر کا نقشہ تیار کیا جائے۔

اسکین میں جہاز کے حجم کے ساتھ ساتھ اس کی باریک تفصیلات جیسے پروپلر میں موجود سیریل نمبر تک کو دکھایا گیا جہاز کے اگلے حصے پر اب زنگ چڑھ چکا ہے مگر 111 سال بعد بھی اسے شناخت کیا جا سکتا ہے۔

پارکس اسٹیفن سن برسوں سے ٹائی ٹینک پر تحقیق کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ان 3 ڈی تصاویر کو دیکھ کردنگ رہ گئے تھے، انہوں نے بتایا کہ ان اسکینز کی جانچ پڑتال سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ اپریل 1912 کی رات کو جہاز کے ساتھ کیا ہوا تھا، جیسے یہ معلوم ہوگا کہ جہاز کا کونسا حصہ برفانی تودے سے ٹکرایا۔

ماہرین کے مطابق ایک صدی سے زائد عرصے سے سمندر کی تہہ میں موجود اس ملبے کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے، جرثومے اس کے مختلف حصوں کو چاٹ چکے ہیں اس بحری حادثے کو مکمل طور پر سمجھنے کا وقت بہت کم رہ گیا ہےمگر نئے اسکینز سے یہ ملبہ تاریخ میں ہمیشہ موجود رہے گا اور ماہرین اس کے رازوں سے پردہ اٹھا سکیں گے۔

جو اب زنگ کے سٹالیکٹائٹس میں ڈھکا ہوا ہے، جہاز کے گم ہونے کے 100 سال بعد بھی فوری طور پر پہچانا جا سکتا ہے۔ سب سے اوپر کشتی کا ڈیک ہےبحری جہاز کا یہ حصہ سمندر کی تہہ میں گرنے سے گر گیاآس پاس کے ملبے کے میدان میں اشیاء بکھری پڑی ہیں، جن میں جہاز سے آرائشی دھاتی کام، مجسمے اور نہ کھولی گئی شیمپین کی بوتلیں شامل ہیں۔ تلچھٹ پر پڑے درجنوں جوتے سمیت ذاتی املاک بھی موجود ہیں۔