اردو اور پنجابی کی ممتاز شاعرہ سارا شگفتہ 31 اکتوبر 1954ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی تھیں، وہ پنجابی اور اردو دونوں میں شاعری کرتی تھیں، ان کی شاعری کی مرغوب صنف نثری نظم تھی جو ان کے ایک الگ اسلوب سے مرصع تھی۔
سارا شگفتہ کی پنجابی شاعری کے مجموعے بلدے اکھر، میں ننگی چنگی اور لکن میٹی اور اردو شاعری کے مجموعے آنکھیں اور نیند کا رنگ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ ان کی ناگہانی موت نے ان کی زندگی اور شاعری کو ایک نئی جہت عطا کی۔ ان کی وفات کے بعد ان کی شخصیت پر امرتا پرتیم نے ایک تھی سارا اور انور سن رائے نے ذلتوں کے اسیر کے نام سے کتابیں تحریر کیں اور پاکستان ٹیلی وژن نے ایک ڈرامہ سیریل پیش کی جس کا نام آسمان تک دیوار تھا 4 جون 1984ء کو سارا شگفتہ نے کراچی میں ریل کے نیچے آکر خودکشی کرلی-
سارا شگفتہ صاحبہ کی منتخب نظمیں
..
ہمارے آنسوؤں کی آنکھیں بنائی گئیں
ہم نے اپنے اپنے تلاطم سے رسہ کشی کی
اور اپنا اپنا بین ہوئے
ستاروں کی پکار آسمان سے زیادہ زمین سنتی ہے
میں نے موت کے بال کھولے
اور جھوٹ پہ دراز ہوئی
نیند آنکھوں کے کنچے کھیلتی رہی
شام دوغلے رنگ سہتی رہی
آسمانوں پہ میرا چاند قرض ہے
میں موت کے ہاتھ میں ایک چراغ ہوں
جنم کے پہیے پر موت کی رتھ دیکھ رہی ہوں
زمینوں میں میرا انسان دفن ہے
سجدوں سے سر اٹھا لو
موت میری گود میں ایک بچہ چھوڑ گئی ہے
——————
بین کرنے والوں نے
مجھے ادھ کھلے ہاتھ سے قبول کیا
انسان کے دو جنم ہیں
پھر شام کا مقصد کیا ہے
میں اپنی نگرانی میں رہی اور کم ہوتی چلی گئی
کتوں نے جب چاند دیکھا
اپنی پوشاک بھول گئے
میں ثابت قدم ہی ٹوٹی تھی
اب تیرے بوجھ سے دھنس رہی ہوں
تنہائی مجھے شکار کر رہی ہے
اے میرے سر سبز خدا
خزاں کے موسم میں بھی میں نے تجھے یاد کیا
قاتل کی سزا مقتول نہیں
غیب کی جنگلی بیل کو گھر تک کیسے لاؤں
پھر آنکھوں کے ٹاٹ پہ میں نے لکھا
میں آنکھوں سے مرتی
تو قدموں سے زندہ ہو جاتی
——————
تجھے جب بھی کوئی دکھ دے
اس دکھ کا نام بیٹی رکھنا
جب میرے سفید بال
تیرے گالوں پہ آن ہنسیں رو لینا
میرے خواب کے دکھ پہ سو لینا
جن کھیتوں کو ابھی اگنا ہے
ان کھیتوں میں
میں دیکھتی ہوں تیری انگیا بھی
بس پہلی بار ڈری بیٹی
میں کتنی بار ڈری بیٹی
ابھی پیڑوں میں چھپے تیرے کمان ہیں بیٹی
میرا جنم تو ہے بیٹی
اور تیرا جنم تیری بیٹی
تجھے نہلانے کی خواہش میں
میری پوریں خون تھوکتی ہیں
——————
بین کرنے والوں نے
مجھے ادھ کھلے ہاتھ سے قبول کیا
انسان کے دو جنم ہیں
پھر شام کا مقصد کیا ہے
میں اپنی نگرانی میں رہی اور کم ہوتی چلی گئی
کتوں نے جب چاند دیکھا
اپنی پوشاک بھول گئے
میں ثابت قدم ہی ٹوٹی تھی
اب تیرے بوجھ سے دھنس رہی ہوں
تنہائی مجھے شکار کر رہی ہے
اے میرے سر سبز خدا
خزاں کے موسم میں بھی میں نے تجھے یاد کیا
قاتل کی سزا مقتول نہیں
غیب کی جنگلی بیل کو گھر تک کیسے لاؤں
پھر آنکھوں کے ٹاٹ پہ میں نے لکھا
میں آنکھوں سے مرتی
تو قدموں سے زندہ ہو جاتی
خالی آنکھوں کا مکان مہنگا ہے
مجھے مٹی کی لکیر بن جانے دو
خدا بہت سے انسان بنانا بھول گیا ہے
میری سنسان آنکھوں میں آہٹ رہنے دو
آگ کا ذائقہ چراغ ہے
اور نیند کا ذائقہ انسان
مجھے پتھروں جتنا کس دو
کہ میری بے زبانی مشہور نہ ہو
میں خدا کی زبان منہ میں رکھے
کبھی پھول بن جاتی ہوں اور کبھی کانٹا
زنجیروں کی رہائی دو
کہ انسان ان سے زیادہ قید ہے
مجھے تنہا مرنا ہے
سو یہ آنکھیں یہ دل
کسی خالی انسان کو دے دینا