وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ کالعدم قرار دی گئی مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو ماضی میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک سے ووٹ چرانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔
تاہم، وزیر اعظم کے مشیر نے اس بات کی تردید کی کہ ٹی ایل پی پر پابندی کا اس کے ایک پراکسی گروپ کے طور پر سابقہ استعمال سے کوئی تعلق ہے، اور کہا کہ ’پارٹی کو تحلیل کرنے کے کسی بھی منصوبے پر فیصلہ کرنا وفاقی کابینہ پر منحصر ہے۔‘ رانا ثنا نے کہا کہ ’میں کابینہ کی جانب سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں،‘ انہوں نے کالعدم ٹی ایل پی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ ہونے کے بارے میں بھی امید ظاہر کی۔
اس بیان کا تعلق اسی پس منظر سے ہے جب وفاقی کابینہ نے ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری دی اور وزارتِ داخلہ نے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اعلامیے اور حکومتی موقف کے مطابق وزارتِ داخلہ کے پاس ‘معقول بنیادیں’ ہیں کہ ٹی ایل پی دہشت گردی سے منسلک ہے، اس لیے پابندی اینٹی ٹیررازم ایکٹ کے تحت نافذ کی گئی ہے،حکومت نے بتایا کہ پابندی کے خلاف پارٹی کے پاس جائزے اور اپیل کے قانونی راستے موجود ہوں گے مگر پابندی برقرار رہے گی.
کیا ٹی ایل پی اب بھی ایک سیاسی جماعت کے طور پر انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے، کے سوال کے جواب میں وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ ’ انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت پابندی کے دوران کسی پارٹی کا کام کرنا بہت مشکل ہے،’ اور مزید کہا کہ ’اے ٹی اے کے تحت پابندی برقرار رہنے تک پارٹی کسی بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی‘ ۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں، ٹی ایل پی کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ملک بھر میں کم از کم 15 قومی اسمبلی کی سیٹوں کا نقصان ہوا تھا، ان انتخابات کے دوران ٹی ایل پی نے تقریباً 22 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے، جن میں سے زیادہ تر پنجاب اور کراچی سے تھے۔
سائبر کرائم ایجنسی کے لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر تاحال بازیاب نہ ہو سکے، اہلیہ بھی لاپتا
پاکستان اور پولینڈ کا دوطرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق، مشترکہ اعلامیہ جاری
کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں تیسرے نمبر پر پہنچ گیا
پی آئی اے کی برطانیہ کے لیے پروازیں پانچ سال بعد بحال
جنرل ساحر شمشاد کا مالدیپ کا سرکاری دورہ، عسکری تعلقات کے فروغ پر اتفاق











