اوچ شریف ،باغی ٹی وی (نامہ نگارحبیب خان )چولستان میں ٹوبوں کے نام پر محکمہ جنگلات میں کرپشن کاراج،بااثربلاک آفیسربڑے افسروںپر بھاری،وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اورمریم اورنگزیب سینئر وزیر ، وزیر جنگلات سے نوٹس لینے کیلئے درخواست ارسال
تفصیل کے مطابق بہاولپور کی تحصیل احمدپورشرقیہ کے رہائشی درخواست گذارمحمد اسد ولد اللہ بخش قوم لشاری بلوچ نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اورمریم اورنگزیب سینئر وزیر ، وزیر جنگلات کو درخواست ارسال کی ہے جس میں اس نے چولستان رینج منیجمنٹ میں ہونے والی کرپشن کی ہوشرباء کی نشاندہی کی ہے ،
اس نے درخواست میں مئوقف اختیار کیا ہے کہ بندہ چولستان رینج منیجمنٹ ڈویژن بہاولپور سے منسلک ہے جو کہ محکمہ جنگلات کا حصہ ہے۔ اس کا کام چولستان میں ٹوبے کھدوا کر مال مویشیوں کے لیے پانی کا بندو بست کرنا ہوتا ہے لیکن صد افسوس مویشیوں کے نام پر گورنمنٹ کو چونا لگایا جارہا ہے۔ بد نام زمانہ بلاک آفیسر نوید مہر علی جو کہ چمک کے روز پر رینج آفیسر کلر والا لگا ہوا ہے اس پر سابقہ ڈویژنوں میں کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کے 5/6 کیس انکوائریاں چل رہی ہیں نے چولستان میں اندھیر نگری مچائی ہوئی ہے جس میں مبینہ طور پر DFO رضوان احمد دیگر رینج افسران کے ساتھ شامل ہیں اور حصہ بحساب جثہ وصول کر کے سب اچھا کی رپورٹ ہر ماہ ٹورڈ ائری اورٹو رنوٹ میں دے رہے ہیں۔
درخواست میں کرپشن کی تفصیل کچھ ا س طرح لکھی ہے کہ چولستان میں فی ٹوبہ 10 لاکھ روپے کا بل پاس کر کے ٹوبہ پرائیویٹ بندے سے 4 لاکھ روپے میںکھدوار ہے ہیں بقیہ 6لاکھ روپے ہضم کر رہے ہیں۔ اب تک تقریبا 4 سے 5 کروڑ روپے کا بجٹ ڈکار چکے ہیں جبکہ موقع پر اس کا آدھا کام بھی نہیں ہواہے کوئی غیر جانبدار ٹیم بھیج کر چک کروالیں۔ بل سرکاری ٹریکٹروں کی جعلی لاگ بک لکھ کر بنائے جاتے ہیں جبکہ سرکاری ٹریکٹروں کے میٹر اتار کررکھے ہوئے ہیں وہ استعمال نہ ہوتے ہیں۔ ٹریکٹر ڈرائیوں کے فرضی بل بنائے جاتے ہیں جبکہ انہیں مٹھائی دیکر وصولیاں ڈلوائی جاتی ہیں، ڈرائیوں نے آجت ک نہ ٹریکٹر دیکھے ہیں نہ ہی ٹوبے۔ ٹریکٹر ڈرائیوں کی ٹوبوں پر موجودگی GO ٹیکینگ سے چیک کی جاسکتی ہے۔
انچارج فیلڈ عملہ فاریسٹ گارڈ اور بلاک آفیسر موقع پر کام کی نگرانی کرتے ہیں اور نہ ہی وہاں موجود ہوتے ہیں ان کی ٹوبہ پر موجودگی GO ٹیکینگ سے چیک کی جاسکتی ہے ہر فی ٹو بہ رینج آفیسر سے 60 ہزار اور پرائیویٹ ٹھیکیدار سے 50 ہزار روپے فاریسٹ گارڈ اور بلاک آفیسر اپنا حصہ لیکر گھر بیٹھے رہتے ہیں صرف ٹو بہ کی نشاندہی کر کے واپس آجاتے ہیں۔ سرکاری ٹریکٹروں کے لیے ڈیزل کی جعلی خرید کی پرچیاں بھاری کمیشن کے عوض پیٹرول پمپ مالکان سے لی جاتی ہیں پھر بغیر پیٹرول خریدے پمپ مالکان کو کمیشن دے کر ان کے نام چیک پاس کروا کرادائیگی کروائی جاتی ہے جو کہ وائٹ کالر جرم ہے۔
رینج آفیسر نوید مہر علی نے مبینہ طور پر کمیشن کے عوض لاہور سے فنڈ جاری کروائے اور DFO اور اکائونٹینٹ کی ملی بھگت سے بغیر کام کیے بل پاس کروا کر آپس میں پیسے بانٹ لیے جس کا کچھ حصہ پچھلے دنوںجیپ ریلی پر شاہانہ کیمپ لگا کر افسران کی آشیر باد لینے میں خرچ کیا گیا۔ تقریبا یہی صورتحال دیگر تینوں رینجوں بزمان، فورٹ عباس، خانپور میں ہے جس کے رینج آفیسر اپناحصہ لیکر خاموشی سے DFO کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔ چونکہ بھاری کمیشن یا حصہ نیچے سے اوپر تک پہنچ جاتا ہے اس لیے آج تک کسی بڑے افسر نے چولستان کا دورہ کر کے موقع پر کام چیک نہ کیا ہے بلکہ جعلی ٹور ڈائری اور ٹور نوٹ لکھ کر اپنا حصہ کھر اکیاجاتاہے۔
ریج آفیسر نوید مہر علی DFO رضوان احمد ، اکاونٹینٹ رینج آفیسر عرفان قادر، رینج آفیسر محمد عباس ، رینج آفیسر ایوب وغیرہ نے مل کرخوب مال سمیٹ رکھا ہے اور محکمہ اور لوگوں کی نظروں میں معصوم بنے ہوئے ہیں جبکہ ان کے جرم کی سزا معصوم جانور بھگت رہے ہیں جن کے لیے نہ ٹوبے ہیں نہ ٹوبوں میں پانی ہے اور چولستان میں قحط کی صورتحال ان لوگوں کی پیدا کردہ ہے ۔ فنڈ یہ کھا جاتے ہیں اور جانور غریبوں کے مرتے ہیں۔
درخواست میں لکھاگیا ہے کہ ہر سال محکمانہ جعلی آڈٹ کروا کر لاکھوں روپے کی رشوت کے عوض سب اچھا کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیتے ہیں،رینج آفیسر نوید مہر علی بہاولنگر سے کرپشن کے کیس میں سسپینڈ ہو کر لال سونہارا نیشنل پارک آیا ،یہاں DFO سے ملی بھگت کر کے رینج آفیسر لاڈم سر پر لگ گیا اس کے پاس چائنہ کا موٹر سائیکل ہوتا تھا اس نے سرکاری فنڈ پر خوب ہاتھ صاف کیے اور کاریں وغیرہ خرید لیں ۔
لال سوہانرہ میں DFO فضل شاہ سے ناچا کی پر اس نے اسے سسپینڈ کر دیا گیا، کلریکل غلطی کیوجہ سے یہ بحال ہو کر لال سوہانرہ سے چولستان ڈویژن میں کلر والا رینج میں پھر رینج آفیسر لگ گیا اور یہ کرپشن کنگ بن گیا جبکہ چمک کے زور پر اپنی پانچ انکوائریاں ڈی ایف او راجہ جاوید رحیم یارخان کے پاس لگواکر پینڈنگ کرائی ہوئی ہیں اور عقریب پروموشن لینے کے چکروں میں ہے۔ گیارہویں سکیل کا یہ بلاک آفیسرافسروں کیساتھ ملکر OPS کے تحت آرڈر کر وار کررینجوں میں رینج آفیسر کے مزے کر رہا ہے اور عیاشی کی زندگی گزار رہا ہے۔
درخواست گذار محمد اسد نے درخواست میں ایک نوٹ بھی لکھا ہے اس کے مطابق جس کام پر چولستان ڈویژن کی حدودمیں چولستانی علاقوں میں محکمہ جنگلات فنڈ ٹوبہ جا ت خرچ کر چکا ہے اور کر رہاہے ،ٹوبہ جانوروں کے پانی پینے والا تالاب ہوتا ہے جسے چولستان کے لوگ ٹوبہ کہتے ہیں، ہرٹوبہ کی پیمائش 100/100 یعنی 100 فٹ چوڑا ، 100 فٹ لمبا اور 8 فٹ گہرا ہوتا ہے اس میں سے کئی ٹوبہ جات اور زیادہ ترایسے ہوتے ہیں جن کی سیلٹ صفائی کی جاتی ہے اگر وہ پہلے سیلٹ سے بھر جائے تو تین یا چارفٹ سیلٹ نکال کر اس کے 10لاکھ روپے چارج کیے جار ہے ہیں اور کیے جاچکے ہیں اس ٹوبہ جات کو کھدوانے کے لیے یا سیلٹ صفائی کروانے کے لیے زیادہ سے زیادہ 4 لاکھ روپے خرچہ آتا ہے ۔یہ ٹوبے کچے ہوتے ہیں بلکہ پختہ نہیں ہوتے۔
درخواست گذارنے درخواست میں لکھا کہ بندہ اس محکمہ چولستان میں بطور ملازم رہا ہے اور رینج آفیسر کے دفتری کام بخوبی جانتا ہے او بندہ اس پر درخواست گزار رہا ہے کہ جوٹوبہ جات جس طریقے سے محکمہ جنگلات خود کھدوارہا ہے سرکاری طور پر اسی طریقے سے بندہ خود 4 لاکھ روپے میں کھدوانے کے لیے تیار ہے بقیہ ٹوبہ جات مجھے دیے جائیں موجودہ DFO اور رینج افسران صوبہ پنجاب گورنمنٹ خزانہ فی کس ٹوبہ 6 لاکھ روپے کا ٹیکہ کیوں لگا رہے ہیں درخواست گذارمحمد اسد ولد اللہ بخش قوم لشاری بلوچ نےمطالبہ کیا ہے کہ اس ہونے والی کرپشن پر فوری ایکشن لیں تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے.
وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر جنگلات کو دی گئی درخواست کا عکس