آج کا نوجوان اور تہذیب
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
پاکستانی معاشرے میں اگر آج کے نوجوان کی بات کی جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ آج کا نوجوان تعلیم یافتہ ہے، باخبر ہے، جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے، مگر جب بات تہذیب و اخلاق کی ہو، تو ایک نمایاں خلا دکھائی دیتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ترقی کی اس دوڑ میں نوجوان نے علم تو حاصل کر لیا، مگر تہذیب کہیں پیچھے رہ گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا تعلیم اور تہذیب الگ الگ چیزیں ہیں؟ اور اگر نہیں، تو پھر آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بدتہذیبی کا شکار کیوں ہے؟
تہذیب کا مطلب ہے: انسان کے ظاہر و باطن کو پاکیزہ اور متوازن بنانا، اخلاق، رویوں، اور معاملات کو نکھارنا۔ اسلامی تہذیب میں شائستہ گفتار، والدین کا ادب، بڑوں کا احترام، حقوق العباد، سچائی، دیانتداری، حیا اور صفائی جیسے اصول شامل ہیں۔
نوجوان اور تہذیب میں فاصلے کی وجوہات کیا ہیں جو پاکستانی معاشرے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں؟ مغربی طرزِ زندگی کو "ترقی” سمجھا جانے لگا ہے، جس میں فیشن، آزاد خیالی، مادہ پرستی اور خود غرضی غالب ہیں۔ یہ یلغار میڈیا، سوشل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہر گھر میں داخل ہو چکی ہے۔
آج والدین بچوں کو موبائل، ٹی وی اور گیجٹس تو دے دیتے ہیں، مگر وقت اور تربیت نہیں دیتے۔ ماں باپ خود مصروف، اور بچے اکیلے — نتیجہ یہ کہ تہذیب سکھانے والا کوئی نہیں۔
ہمارا تعلیمی نظام ڈگریاں دیتا ہے، لیکن کردار سازی نہیں کرتا۔ نہ نصاب میں اخلاقیات کی تربیت ہے، نہ اساتذہ کردار کے نمونے ہیں۔
نوجوانوں کی زندگی کا بڑا حصہ انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر گزرتا ہے، جہاں نام نہاد "ستارے” فحاشی، شہرت، اور شہوت کو "کامیابی” کی علامت بنا کر پیش کرتے ہیں، جو ہمارے معاشرے میں برائی کی جڑ ہے۔
نماز، قرآن، سیرتِ نبوی ﷺ، اور اسلامی تاریخ سے نابلد نوجوان، صرف دنیا کی چکا چوند کو جانتا ہے، مگر روحانی روشنی سے محروم ہے۔
آج ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، اور افسر بھی جھوٹ بولتے ہیں، رشوت لیتے ہیں، بڑوں سے بدتمیزی کرتے ہیں، فحاشی میں مبتلا ہوتے ہیں، جس کی کئی ایک مثالیں ہماری معاشرتی زندگی میں موجود ہیں تو کیا ایسی تعلیم کا کوئی فائدہ ہے؟
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے:> "بدترین جاہل وہ ہے جو تعلیم یافتہ ہو کر بھی ادب سے خالی ہو۔”
تہذیب سے محرومی کے نتائج
* والدین اور اساتذہ کا احترام ختم
* معاشرے میں بدتمیزی، جھوٹ، بے حسی
* فحاشی، بے حیائی، اور اخلاقی زوال
* خودغرضی، مادہ پرستی، اور بے سکونی
* دین سے دوری اور دنیا پرستی
حل کیا ہے؟ نوجوان کو مہذب کیسے بنائیں؟
اسلامی تعلیمات کو بنیاد بنایا جائے
قرآن، سیرتِ نبوی ﷺ، اور دینی تعلیم لازمی کی جائے۔
خاندان میں تربیت کو ترجیح دی جائے
والدین وقت دیں، کردار سے سکھائیں، دعاؤں پر نہ چھوڑیں۔
اساتذہ اور ادارے تربیت کے مراکز بنیں
صرف نصاب نہ پڑھائیں، اخلاقیات، کردار اور انسانیت بھی سکھائیں۔
میڈیا کی اصلاح ہو
ایسے کردار سامنے لائے جائیں جو اخلاق، حیا اور تہذیب کا نمونہ ہوں۔
سوشل میڈیا پر نگرانی اور رہنمائی ہو
نوجوانوں کو بامقصد استعمال کا شعور دیا جائے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہے، مگر امید کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہی۔