سابق برطانوی وزیراعظم سر ٹونی بلیئر کو جنگ زدہ غزہ میں ایک عبوری بین الاقوامی انتظامیہ کی سربراہی دیے جانے کا امکان ہے۔ یہ انتظامیہ تعمیرِ نو، سیاسی انتقالِ اقتدار اور سیکیورٹی معاملات کی نگرانی کرے گی۔
یہ منصوبہ مشرقی تیمور اور کوسوو جیسے خطوں کی عبوری انتظامیہ کے ماڈل پر تیار کیا گیا ہے، جہاں سے ریاستی خودمختاری کی جانب منتقلی کی نگرانی کی گئی تھی۔رپورٹس کے مطابق منصوبے کے تحت بلیئر “غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی” کی قیادت کریں گے، جو ابتدائی طور پر پانچ سال کے لیے غزہ کی اعلیٰ ترین سیاسی و قانونی اتھارٹی ہوگی۔ اس ادارے کا پہلا مرکز مصری سرحد کے قریب العرش میں قائم ہوگا اور بعد ازاں کثیر القومی فورس کے ہمراہ غزہ میں تعینات ہوگا۔
اگر یہ منصوبہ منظور ہوگیا تو بلیئر 25 رکنی سیکریٹریٹ اور 7 رکنی بورڈ کی سربراہی کریں گے۔ منصوبے کو امریکی حمایت حاصل ہے، جبکہ ٹونی بلیئر گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر عالمی رہنماؤں سے اس بارے میں بات چیت کر چکے ہیں۔رپورٹس کے مطابق اس منصوبے کے تحت غزہ میں ایک بین الاقوامی سیکیورٹی فورس بھی تعینات ہوگی جو سرحدوں کی نگرانی کرے گی اور حماس کی دوبارہ منظم ہونے کی کوششوں کو روکے گی۔ منصوبے میں واضح کیا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے زبردستی بے دخل نہیں کیا جائے گا۔
تاہم بلیئر کی ممکنہ شمولیت متنازع تصور کی جا رہی ہے۔ فلسطینی حلقے انہیں ناپسند کرتے ہیں اور ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔ مزید یہ کہ 2003 میں عراق جنگ کی حمایت پر بھی انہیں شدید تنقید کا سامنا رہا۔کچھ مغربی سفارتکاروں کے مطابق ابھی یہ حتمی فیصلہ نہیں ہوا کہ بلیئر اس عبوری انتظامیہ کے سربراہ ہوں گے، ممکنہ طور پر یہ انتظامیہ دو سال کے لیے بھی قائم کی جا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ ٹونی بلیئر نے 2007 میں وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کے بعد 2015 تک مشرقِ وسطیٰ میں بین الاقوامی مندوب کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں، مگر فلسطینی ریاست کی تیاری کے سلسلے میں نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکے تھے۔
امریکی بحری جہاز یو ایس ایس وین ای میئر کا کراچی کا دورہ مکمل
غزہ میں نیتن یاہو کا خطاب زبردستی سنانے پر اسرائیلی فوج اور اہل خانہ برہم
امریکا نے بھارت پر روسی تیل کی خریداری ختم کرنے کا دباؤ ڈال دیا
یمن کی بندرگاہ پر ڈرون حملہ، جہاز میں 27 پاکستانی پھنس گئے