کوچی، 25 مئی 2025،بحرِ عرب میں بھارتی ریاست کیرالہ کے ساحل کے قریب ایک خطرناک سانحہ پیش آیا، جب مال بردار بحری جہاز MSC ELSA 3 اپنے 640 کنٹینرز سمیت سمندر برد ہو گیا۔ ان میں سے 13 کنٹینرز میں انتہائی زہریلے کیمیکل اور 12 میں کیلشیم کاربائیڈ موجود تھا، جو پانی کے ساتھ خطرناک کیمیائی ردِعمل پیدا کرتا ہے۔
یہ صرف کیمیکل کا مسئلہ نہیں ، جہاز میں 450 میٹرک ٹن سے زائد ڈیزل اور فرنس آئل بھی موجود تھا، جو سمندری حیات، آبی ماحولیاتی نظام اور انسانی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔بھارت کی کیرالہ حکومت نے فوری طور پر ریاست گیر الرٹ جاری کر دیا ہے۔ ماہی گیروں کو ساحلی علاقوں سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ پانی میں زہریلے مادے بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو نقصان ناقابلِ تلافی ہو گا۔
یہ واقعہ ایک سوال کو جنم دیتا ہے جو صرف کیرالہ تک محدود نہیں،اگر بھارتی حکومت زہریلے کیمیکلز کے ایک کارگو کو محفوظ طریقے سے نہیں سنبھال سکتی، تو کیا وہ جوہری مواد جیسی نازک ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہے؟بھارت میں آئے روز حکومتی غفلت اور ناقص انتظامات کے واقعات سامنے آ رہے ہیں، لیکن MSC ELSA 3 کا سانحہ حد سے تجاوز کر گیا۔ یہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ نظام کی ناکامی کی کھلی دلیل ہے۔
عوام کو مسلسل یہ بتایا جاتا ہے کہ بھارت کو بیرونی خطرات لاحق ہیں، لیکن اس وقت سب سے بڑا خطرہ شاید اپنے ہی ذخائر اور حکومتی نااہلی سے ہے۔جوہری توانائی اور خطرناک کیمیکلز سے لیس ملک میں اگر احتیاطی تدابیر، ہنگامی ردِعمل اور تحفظاتی نظام موجود نہ ہوں، تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ”بھارتی عوام کو کسی بیرونی دشمن سے نہیں، اپنی ہی ریاستی غفلت سے خطرہ ہے!”،کیا ہندوستان اپنے ہی زہریلے ذخائر کا شکار بنے گا؟یہ سوال اب صرف ماحولیات یا ماہی گیروں کا نہیں ، یہ پورے بھارت کی سلامتی، صحت، اور مستقبل کا سوال ہے۔جب ایک بحری جہاز کا زہریلا کارگو سنبھالا نہ جا سکے، تو کیا حکومت سینکڑوں جوہری تنصیبات اور تابکار مواد کی دیکھ بھال کی اہلیت رکھتی ہے؟