بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جہاں قدرتی وسائل کی فراوانی اور جغرافیائی اہمیت ایک روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہے۔ تاہم اس ترقی کی بنیاد مضبوط انفراسٹرکچر، بہتر سفری سہولیات اور محفوظ شاہراہوں سے ہی ممکن ہے۔ انہی قومی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے این-25 مستونگ تا چمن شاہراہ کی تعمیر و توسیع کا عظیم منصوبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نگرانی میں تیزی سے جاری ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے معاشی سرگرمیوں کا نیا دروازہ ثابت ہو رہا ہے۔این-25 قومی شاہراہ بلوچستان کے دل میں موجود اہم شہروں مستونگ، کچلاک، کوئٹہ، قلعہ عبداللہ اور چمن کو آپس میں ملاتی ہے۔ یہ سڑک اہم تجارتی راستے کا حصہ بھی ہے، جس کی وجہ سے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ روزانہ ہزاروں مسافر، ٹرک، بسیں اور تجارتی گاڑیاں اس شاہراہ پر سفر کرتی ہیں۔ تاہم ماضی میں اس سڑک کی خستہ حالی، تنگ گزرگاہیں اور خطرناک موڑ ٹریفک حادثات اور سفر میں دشواریوں کا سبب بنتے رہے۔ یہی وجوہات اس منصوبے کی فوری ضرورت کی بنیاد بنیں۔
این-25 کی تعمیر و توسیع کا منصوبہ مجموعی طور پر 198 کلومیٹر طویل ہے جسے تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے،
پہلا حصہ،مستونگ تا کچلاک 88 کلومیٹر،اس حصے میں پرانی روڈ کی مرمت، کشادگی اور حفاظتی اقدامات شامل ہیں۔
دوسرا حصہ کچلاک تا قلعہ عبداللہ 62 کلومیٹر،یہ حصہ نہ صرف ٹرانسپورٹ کے لحاظ سے اہم ہے بلکہ کوئٹہ شہر کی ٹریفک لوڈ کو بھی کم کرنے میں مددگار ہوگا۔
تیسرا حصہ قلعہ عبداللہ تا چمن 48 کلومیٹریہ مرحلہ سب سے اہم اور چیلنجنگ قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس میں خوجک ٹنل (2.5 کلومیٹر)،چمن باؤنڈز (2.5 کلومیٹر)جیسے اہم اسٹرکچرز شامل ہیں۔اسی تیسرے حصے پر پہلے مرحلے میں بین الاقوامی معیار کے مطابق تیزی سے کام جاری ہے۔ قلعہ عبداللہ تا چمن سیکشن نہ صرف سب سے زیادہ ٹریفک لوڈ برداشت کرتا ہے بلکہ ملکی و غیر ملکی تجارت کے لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سیکشن کی کشادگی اور بہتری سے پورے خطے میں سفری اور تجارتی سہولت میں انقلاب آ جائے گا۔
خوجک ٹنل بلوچستان کا ایک تاریخی اور جغرافیائی اہمیت کا حامل حصہ ہے۔ اس 2.5 کلومیٹر طویل ٹنل پر جدید طرز پر بحالی اور توسیع کا کام فروری میں شروع کیا جا رہا ہے۔ نئی ڈیزائننگ، حفاظتی دیواریں، وینٹی لیشن سسٹم اور لائٹنگ سسٹم خوجک ٹنل کو عالمی معیار کے برابر لے آئیں گے۔ اس ٹنل کی بہتری سے سردیوں میں برفباری کے دوران ٹریفک جام اور حادثات میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔منصوبے کی تعمیر پاکستان کے معروف انجینئرنگ ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے سپرد کی گئی ہے۔ ایف ڈبلیو او مشکل ترین علاقوں میں اعلیٰ معیار کے انفراسٹرکچر بنانے کا وسیع تجربہ رکھتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں بھاری مشینری، محفوظ روڈ الائنمنٹ، ڈرینیج سسٹمز، فلائی اوورز اور حفاظتی دیواروں کی تنصیب جیسے چیلنجز ایف ڈبلیو او کی پیشہ ورانہ صلاحیت کا عملی ثبوت ہیں۔
چونکہ این-25 نہ صرف تعمیراتی لحاظ سے حساس منصوبہ ہے بلکہ اس پر روزانہ عوام اور تجارتی ٹریفک بھی چلتی ہے، اس لیے اس کی مجموعی سیکیورٹی پاک فوج اور ایف سی بلوچستان (نارتھ) کے ذمہ ہے۔ یہ ادارے تعمیراتی عملے، مشینری اور مقامی آبادی کی مکمل حفاظت یقینی بنا رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کی موجودگی سے علاقے میں اعتماد اور امن کا ماحول فروغ پا رہا ہے۔یہ منصوبہ بلوچستان اور پاکستان کی معاشی، سماجی اور تجارتی ترقی کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
چمن بارڈر پاکستان اور افغانستان کے درمیان سب سے بڑا زمینی تجارتی دروازہ ہے۔ بہتر شاہراہ سے تجارتی ٹرکوں کی آمدورفت تیز ہوگی، جس سے درآمدات و برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوگا۔کشادہ سڑکوں اور بہتر الائنمنٹ کی بدولت سفر کم وقت اور زیادہ آرام دہ ہو جائے گا۔ ٹوٹ پھوٹ، کھڈوں اور تنگ موڑوں سے نجات ملنے سے مسافروں کو بڑی سہولت میسر آئے گی۔منصوبے میں مقامی لیبر، مشین آپریٹرز، ٹیکنیشنز، ڈرائیورز، کھانے پینے کی سروسز اور دیگر شعبوں میں ہزاروں ملازمتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ طویل المدتی طور پر بھی یہ شاہراہ تجارت میں اضافے کے ذریعے روزگار کے نئے دروازے کھولے گی۔سرد علاقوں خصوصاً خوجک ٹاپ پر برفباری کے دوران حادثات عام تھے۔ نئی سڑک، ٹنل کی بہتری، حفاظتی گارڈریل اور جدید سائن بورڈز کے بعد حادثات میں نمایاں کمی آئے گی۔سڑکوں کی بہتری ہمیشہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہے۔ جب علاقے میں تجارت بڑھے گی، روزگار ملے گا تو امن و استحکام خود بخود مضبوط ہوں گے۔ این-25 اس سلسلے میں حقیقی معنوں میں خوشحالی کی شاہراہ ثابت ہو گی۔
این-25 کی کامیاب تکمیل عوام کے تعاون، حکومتی ذمہ داری اور سیکیورٹی اداروں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ یہ منصوبہ بتا رہا ہے کہ جب ریاست اور عوام ایک سمت میں قدم بڑھائیں تو ترقی خود راستہ بنا لیتی ہے۔ بلوچستان کی عوام اس منصوبے کو امن، ترقی اور معاشی روشنائی کی علامت کے طور پر دیکھ رہی ہے۔این-25 شاہراہ نہ صرف آج کے لیے اہم ہے بلکہ مستقبل قریب میں یہ سی پیک، وسطی ایشیائی ریاستوں، گوادر پورٹ اور افغانستان کے درمیان تجارت کا مرکزی راستہ بن جائے گی۔ بین الاقوامی سطح پر روابط بڑھیں گے، خطے میں ترقی کے نئے دروازے کھلیں گے اور بلوچستان کو وہ اہمیت ملے گی جس کا وہ برسوں سے مستحق ہے۔








