ٹرمپ، امریکیوں اور دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفیٰ بڈانی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے نہ صرف دنیا کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ خود امریکہ کے اندر خوف، نفرت اور تقسیم کی ایسی فضا پیدا کر دی ہے جو جمہوری روایات اور انسانی حقوق کے لیے مسلسل خطرہ بن چکی ہے۔ بین الاقوامی طلبا کے ویزے منسوخ ہوں یا مشرق وسطیٰ میں کشیدگی، عالمی معیشت ہو یا داخلی سیاست، ٹرمپ کا ہر قدم دنیا کے امن، استحکام اور انسانیت کے خلاف ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں کے تقریباً 450 بین الاقوامی طلبا کے ویزے غیر متوقع طور پر اچانک منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق ان طلبہ میں پاکستانی اور دیگر مسلم ممالک کے طلبا بھی شامل ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان طلبا کے ویزے بغیر کسی پیشگی اطلاع یا قانونی کارروائی کے منسوخ کیے گئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ اور تعلیمی حلقے اس عمل پر سخت تشویش کا شکار ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت خاموشی سے یہ اقدامات کر رہی ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ویزا منسوخی کی ایک بڑی وجہ ان طلبا کا فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت بتائی جا رہی ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر ایسے طلبا کے ویزے بھی منسوخ کیے گئے ہیں جنہوں نے کسی مظاہرے میں شرکت ہی نہیں کی۔ ان اقدامات کا دائرہ ہارورڈ، اسٹینفورڈ، یو سی ایل اے اور یونیورسٹی آف مشیگن جیسے بڑے تعلیمی اداروں تک پھیل چکا ہے۔
ہارورڈ، اسٹینفورڈ، یو سی ایل اے اور یونیورسٹی آف مشیگن جیسے عالمی شہرت یافتہ اداروں کے طلبا کو اس غیرمعمولی صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کے نئے رخ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ واقعہ ٹرمپ کی امیگریشن اور بین الاقوامی پالیسی کے اس رخ کی علامت ہے جس نے نہ صرف غیر ملکی طلبا بلکہ پوری دنیا کے امریکہ سے وابستہ خواب دیکھنے والوں کو مایوسی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت اپنی پہلی مدت ہی کی طرح سخت گیر، متنازعہ اور دنیا بھر کے لیے خدشات سے بھرپور نظر آتی ہے۔ ان کی’امریکہ فرسٹ؛ پالیسی نے بین الاقوامی تعاون، عالمی اداروں کے احترام اور انسانیت کے مشترکہ مفادات کو بار بار نقصان پہنچایا ہے۔
گارڈین جیسے معتبر اداروں کی رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ پیرس معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری اور عالمی ادارہ صحت (WHO) پر بے جا تنقید نے موسمیاتی تبدیلی اور صحت عامہ جیسے عالمی مسائل کے حل کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس روش نے نہ صرف امریکہ کے عالمی کردار کو کمزور کیا بلکہ چین اور روس جیسے ممالک کو دنیا میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ٹرمپ کی معاشی پالیسی بھی دنیا کے لیے مسائل کا باعث بنی۔ چین کے ساتھ تجارتی جنگ نے عالمی معیشت میں غیر یقینی صورتحال پیدا کی، امریکی صارفین کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبایا اور عالمی سپلائی چین کو متاثر کیا۔ امریکہ کے اتحادی بھی اس معاشی جارحیت کی لپیٹ میں آچکے ہیں ،جس سے امریکہ عالمی تجارتی نظام میں تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے،جس کا براہ راست اثر امریکی عوام پر پڑے گا
مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کی پالیسی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ غزہ میں فلسطینیوں کو منتقل کرنے اور علاقے کا کنٹرول سنبھالنے جیسے منصوبے پیش کیے گئے جنہیں عالمی سطح پر نسلی تطہیر کے مترادف قرار دیا گیا۔ دی گارڈین جیسے معتبر ادارے ان پالیسیوں کو انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے اور خطے میں مزید عدم استحکام پیدا کرنے کا سبب قرار دے چکے ہیں۔ ایران کے ساتھ مذاکرات کے اعلان کے باوجود ٹرمپ کی دھمکی آمیز زبان نے امن کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ اگر یہ مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو خطہ ایک اور خطرناک جنگ کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے۔
امیگریشن پالیسی کے حوالے سے ٹرمپ نے جو سخت اقدامات کئے ہیں ان کے اثرات نہ صرف تارکین وطن بلکہ بین الاقوامی طلبا پر بھی براہ راست مرتب ہوئے ہیں۔ تازہ ترین ویزا منسوخی کا واقعہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ امریکہ اب تعلیم، تحقیق اور اظہار رائے کی آزادی جیسے عالمی اصولوں سے دور ہوتا جارہا ہے۔ یہ صورتحال امریکہ کی عالمی تعلیمی ساکھ کے لیے بھی ایک بڑا دھچکہ ہے، جس پر دنیا بھر کی یونیورسٹیز اور تعلیمی حلقے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
داخلی طور پر ٹرمپ کے اقدامات نے امریکہ کے اپنے معاشرتی اور جمہوری ڈھانچے کو بھی کمزور کیا۔ مزدور یونینز کے خلاف مہم، ثقافتی اداروں پر پابندیاں اور صحافیوں کے خلاف زبانی حملے، امریکی اقدار کے چہرے پر بدنما داغ بن چکے ہیں۔ حیران کن طور پر ٹرمپ نے 1798 کے قدیم ‘ایلین انیمیز ایکٹ’ کو استعمال کرتے ہوئے بعض غیر ملکیوں کو بغیر قانونی کارروائی کے ملک بدر کرنے جیسے سخت اقدامات کیے ہیں جنہیں انسانی حقوق کی تنظیموں نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ سرکاری اداروں میں بڑے پیمانے پر برطرفیاں اور یکطرفہ پالیسی تبدیلیاں امریکی بیوروکریسی کے استحکام کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے یہ تمام پہلو دنیا کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ وہ امریکہ جسے کبھی جمہوریت، آزادی، مساوات اور انسانی حقوق کی علامت سمجھا جاتا تھا، آج انہی اصولوں سے دور ہوتا جارہا ہے۔ عالمی برادری اور خود امریکی عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان پالیسیوں کے ممکنہ خطرناک نتائج کا ادراک کریں اور اپنی آواز بلند کریں کیونکہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے یہ سائے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے امن، معیشت اور انسانی اقدار کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
آج جب امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں کے معصوم طلبا اپنے تعلیمی مستقبل سے محروم ہو رہے ہیں، جب کہ مشرق وسطیٰ ایک نئی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے اور عالمی معیشت غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے تو یہ سوال اب ایک حقیقت بن چکا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صرف امریکہ کی تاریخ کا متنازعہ صدر نہیں بلکہ دنیا کے امن، انسانی حقوق، معاشی استحکام اور جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ دنیا کو امریکی عوام کو اور عالمی اداروں کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس خطرے کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔








