امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو محکمہ تعلیم کو تحلیل کرنے کی راہ میں حائل قانونی رکاوٹیں ہٹا کر اس اقدام کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے، جس کے بعد ریاستی حکومتوں اور اساتذہ کی تنظیموں میں شدید تحفظات جنم لے چکے ہیں۔

سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ میں سے 6 قدامت پسند ججز نے یہ فیصلہ کسی وضاحت کے بغیر جاری کیا، جس سے پہلے فیڈرل جج کی جانب سے محکمہ تعلیم کے برطرف ملازمین کی بحالی سے متعلق حکم کالعدم ہوگیا۔ تین لبرل ججز نے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے آئینی نظام کے لیے خطرناک قرار دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں محکمہ تعلیم کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا، اور جنوری 2025 میں دوسری مدتِ صدارت کے آغاز پر وفاقی اداروں میں ملازمین کی کمی اور ادارہ جاتی اصلاحات کی ہدایت جاری کی۔

مارچ 2025 میں ٹرمپ انتظامیہ نے محکمہ تعلیم کے 50 فیصد ملازمین کو فارغ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، حتیٰ کہ وزیر تعلیم لنڈا مکمان سے کہا گیا کہ "اپنے آپ کو بے روزگار بنا دو”۔اس فیصلے کے خلاف 20 امریکی ریاستوں اور اساتذہ کی یونینز نے مؤقف اختیار کیا کہ محکمہ تعلیم کا قیام 1979 کے کانگریس ایکٹ کے تحت ہوا، اور اسے ختم کرنے کا اختیار صرف کانگریس کو حاصل ہے۔ جج سونیا سوتو مئیر نے اختلافی نوٹ میں خبردار کیا کہ عدالت کی خاموشی آئینی اختیارات کی تقسیم کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ میں تعلیم کی مالی معاونت اگرچہ زیادہ تر ریاستی اور مقامی سطح پر کی جاتی ہے، لیکن وفاقی حکومت کی فنڈنگ کم آمدنی والے علاقوں اور خصوصی طلبہ کی ضروریات کے لیے نہایت اہم سمجھی جاتی ہے۔اب جبکہ سپریم کورٹ سے قانونی منظوری مل چکی ہے، ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے تعلیمی نظام پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اور ملک میں اس فیصلے کے خلاف ایک نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔

مالاکنڈ ڈویژن میں بارشوں سےچھتیں گرنے کے واقعات، تین بچے جاں بحق

ملک بھر میں سونے کی قیمت میں معمولی کمی

جنڈولہ اور برمل میں کل کرفیو نافذ، نقل و حرکت اور بازاروں پر مکمل پابندی

جنرل ساحر مرزا کی چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی 98ویں سالگرہ پر شرکت

مالی سال 2025: بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 1.21 فیصد کمی

Shares: