ڈونلڈ ٹرمپ کا دہشت گردی کے حامی غیر ملکیوں کیخلاف نیا صدارتی حکم نامہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردی کے حامی غیر ملکیوں کے خلاف ایک نیا صدارتی حکم نامہ جاری کر دیا ہے جس کا مقصد امریکی قومی سلامتی کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ اس حکم نامے کا عنوان ’امریکا کو غیر ملکی دہشت گردوں اور دیگر قومی سلامتی و عوامی تحفظ کے خطرات سے محفوظ رکھنا‘ رکھا گیا ہے۔
اس نئے حکم نامے کا بنیادی مقصد ایسے غیر ملکیوں کی شناخت اور جانچ پڑتال کرنا ہے جو امریکا کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس میں خاص طور پر ان افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے جو حماس اور حزب اللّٰہ کی حمایت کرتے ہیں، اور ان افراد کے خلاف سخت اقدامات کی تجویز دی گئی ہے جو ان تنظیموں کے ساتھ وابستہ مظاہروں یا دیگر سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کے تحت ایسے افراد کو فوری طور پر ملک بدر کرنے کی کارروائی کی جا سکتی ہے۔صدارتی حکم نامے کے مطابق ہوم لینڈ سیکیورٹی، محکمۂ خارجہ اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ایسے افراد کے بارے میں سخت نگرانی اور جانچ پڑتال کریں گی تاکہ ان خطرات کی فوری شناخت کی جا سکے جو امریکی قوم کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس میں خاص طور پر ان غیر ملکیوں کو ہدف بنایا جائے گا جو پہلے ہی امریکا میں موجود ہیں اور امریکا مخالف نظریات رکھتے ہیں یا نفرت انگیز نظریات کی ترویج کر رہے ہیں۔
یہ حکم نامہ خاص طور پر ان غیر ملکیوں کی سخت جانچ کا تقاضا کرتا ہے جو مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیاء اور شمالی افریقا جیسے دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں سے امریکا آتے ہیں۔ ان افراد کے ویزا کی جانچ بھی سختی سے کی جائے گی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ امریکا میں داخل ہونے والے افراد ملک کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بنیں۔
مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس حکم نامے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حکم نامہ داخلی اور عالمی سطح پر ایک بڑا تنازعہ پیدا کرے گا اور اسے ٹرمپ کے گزشتہ دورِ اقتدار میں جاری کردہ ’مسلم بین‘ کے حکم نامے سے ملتا جلتا سمجھا جا رہا ہے، جس میں مسلمانوں اور ان ممالک کو نشانہ بنایا گیا تھا جہاں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔دوسری جانب ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام امریکا کی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر ملکی افراد کو امریکی آزادی کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تاکہ وہ نفرت یا تشدد کو فروغ نہ دے سکیں۔
صدر ٹرمپ کے ناقدین، شہری حقوق کے ادارے اور مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم گروہ نے اس حکم نامے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حکم نسلی امتیاز کو فروغ دے سکتا ہے، مسلمانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے اور آزادیٔ اظہار پر قدغن لگانے کا باعث بن سکتا ہے۔اس حکم نامے پر آنے والے دنوں میں امریکا اور عالمی سطح پر مزید بحث اور تنازعات کی توقع کی جا رہی ہے
انسانی اسمگلنگ،سدباب کیلئے وزیرِ اعظم کی سربراہی میں خصوصی ٹاسک فورس قائم