(خصوصی رپورٹ: خالد محمودخالد)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک مختصر مگر بھاری بیان نے جنوبی ایشیا کی فضا میں سفارتی ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان جوہری تجربات کر رہا ہے، جبکہ امریکہ نہیں۔ یہ جملہ بظاہر ایک سیاسی نکتہ لگتا ہے مگر درحقیقت اس کے دور رس سفارتی اثرات ہیں اور ان اثرات سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو پہنچ سکتا ہے۔
امریکی سیاست میں ٹرمپ ہمیشہ خوف کا بیانیہ بیچنے کے ماہر رہے ہیں۔ اب جب وہ دوبارہ انتخابی مہم کی تیاری میں ہیں تو انہوں نے عالمی جوہری خطرات کا ذکر چھیڑ کر اپنے حامیوں کو باور کرایا کہ دنیا غیر محفوظ ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ واقعی تشویش ظاہر کر رہے تھے تو انہوں نے بھارت کا نام کیوں نہیں لیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ واشنگٹن آج بھی نئی دہلی کو چین کے مقابلے میں سب سے بڑا اسٹریٹجک اتحادی سمجھتا ہے لہٰذا بھارت کو کسی الزام میں گھسیٹنا امریکی مفادات کے خلاف ہوتا۔ نتیجتاً ٹرمپ کا بیان پاکستان کو دباؤ میں لاتا ہے اور بھارت کو ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت کے طور پر پیش کرتا ہے۔
جب کسی ملک کو خطرہ قرار دے دیا جائے تو اس کے مخالف خودبخود محافظ بن جاتے ہیں۔ٹرمپ کے بیان کے بعد بھارت کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف عالمی فورمز پر ایک بار پھر جوہری تحفظ کے نعرے کے ساتھ اپنی مہم تیز کرے۔ بھارت یہ دعویٰ کر سکے گا کہ دہلی ایک ذمہ دار، شفاف اور جمہوری جوہری ریاست ہے جبکہ پاکستان کا نظام غیر واضح اور عسکری کنٹرول میں ہے۔ یہی وہ سفارتی نکتہ ہے جس سے بھارت کو واشنگٹن، پیرس، لندن اور ٹوکیو جیسے دارالحکومتوں میں نرم گوشہ حاصل ہوتا ہے۔
ٹرمپ کے بیان کے بعد بھارت کے دفاعی اداروں کے لیے ایک نیا موقع پیدا ہو گیا ہے کہ وہ علاقائی خطرے کے نام پر مزید فنڈز اور جدید اسلحہ کی منظوری حاصل کریں۔امریکہ اور یورپ کی بڑی کمپنیوں کے لیے یہ ٹرمپ کا یہ بیان دفاعی مارکیٹ کی توسیع ہے جب کہ یہ بھارت کے لیے دفاعی صنعت کی مضبوطی کا باعث بنے گا۔ امریکی صدر کے بیان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات خراب نہیں جب کہ خرابی کادعوی محض دکھاوے کا ایک بیانیہ ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے ساتھ امریکہ کی بڑھتی ہوئی دوستی اس غبارے کی طرح ہے جس کی ہوا صرف ایک پن کی نوک سے نکل جاتی ہے۔








