امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن کی ہونے والی طویل ملاقات میں روس یوکرین جنگ بندی کے حوالے سے کوئی باضابطہ فیصلہ نہ ہوسکا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن نے طویل ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کی،اس موقع پر روس کے صدر پیوٹن نے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کو تعمیری قرار دیا اور کہا کہ صدر ٹرمپ سے بات چیت تعمیری ماحول میں ہوئی،صدر پیوٹن نے مذاکرات کیلئے الاسکا دعوت دینے پر ڈونلڈ ٹرمپ سے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ روس اور امریکا کی مشترکہ تاریخ کا اہم حصہ الاسکا سے جڑا ہے، روسی صدر نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے پڑوسیوں کی طرح اچھا رویہ اپنایا، بہت تعمیری ملاقات رہی، بہت سے باتوں پر اتفاق کیا،امریکی صدر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے یوکرینی صدر زیلنسکی کو ٹیلی فون کروں گا، بہت سے معاملات پر پیشرفت کی ہے،ٹرمپ نے کہا کہ آپ سے جلد بات کروں گا اور ملاقات ہوگی،اس موقع پر روسی صدر پیوٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ماسکو میں ملاقات کی دعوت دی۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان اہم ملاقات الاسکا کے جوائنٹ بیس ایلمینڈورف رچرڈسن (JBER) میں ہوئی،روسی صدر کے الاسکا پہنچنے پر صدر ٹرمپ نے صدر پیوٹن کا ریڈ کارپٹ پر استقبال کیا، اپنی گاڑی میں بٹھا کر ایئربیس سے میٹنگ کے مقام پر گئے،دونوں صدور کی ملاقات تقریباً 3 گھنٹے تک جاری رہی، ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی شریک تھے۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق ملاقات میں یوکرین میں جنگ بندی سے متعلق گفتگو ہوئی، صدر ٹرمپ جنگ بندی کے خواہاں ہیں لیکن انہوں نے دوسری ملاقات پر زور دیا، تاہم ملاقات میں روس یوکرین جنگ بندی کے حوالے سے کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہ آسکا،
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الاسکا میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے استقبال کے دوران طاقت کا اظہار کیا یا نہیں؟ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے،غیرملکی میڈیا کے مطابق ریڈ کارپٹ پر امریکی اور روسی صدر موجود تھے کہ اس دوران امریکی جنگی طیارے روسی صدر کے سر کے اوپر سے گزرے۔عام طور پر ایسا مہمان نوازی اور عزت دینے کا اظہار سمجھا جاتا ہے،اس موقع پر حیران کُن بات یہ تھی کہ ان امریکی طیاروں میں بی ٹو اسٹیلتھ بمبار (B-2 stealth bomber ) طیارہ بھی تھا،سوشل میڈیا پر اس موقع کی ویڈیوز بڑے پیمانے پر شیئر کی جارہی ہیں،صارفین کا کہنا ہے کہ اہم ترین شخصیات کی ملاقات کے مواقع پر ایسا عام سی بات ہے جبکہ کچھ صارفین کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکا کی جانب سے ایسا کرنا طاقت کا مظاہرہ ہوسکتا ہے۔