واشنگٹن: امریکی صدر کی جانب سے چین پر عائد 104 فیصد تجارتی ٹیرف آج سے نافذ ہوگیا ہے، جس سے عالمی تجارت پر ایک نیا تنازعہ جنم لے رہا ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اس فیصلے کا مقصد چین کی درآمدات کو محدود کرنا اور امریکی صنعتوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ امریکی صدر نے چین کی درآمدات پر فروری اور مارچ میں 10-10 فیصد ٹیرف عائد کیے تھے۔ اس کے جواب میں چین نے 10 اپریل کو امریکی مصنوعات پر 34 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چین کے اس اقدام کے فوراً بعد، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر مزید 50 فیصد محصولات عائد کر دیے، جس کے نتیجے میں چینی مصنوعات پر عائد مجموعی ٹیرف اب 104 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

یہ تجارتی تنازعہ اس بات کا غماز ہے کہ دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان تجارتی تعلقات مزید پیچیدہ اور کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ چین نے امریکی ٹیرف کے جواب میں سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ وہ اس اقدام کا مناسب جواب دے گا، اور عالمی معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق، امریکہ اور چین کے درمیان اس تجارتی جنگ کا عالمی تجارت پر طویل مدتی اثر پڑ سکتا ہے، خصوصاً ان شعبوں پر جو دونوں ممالک کی معیشت کے لیے اہم ہیں۔ تجارتی شعبے کے ماہرین نے اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ اس تنازعہ کا اثر عالمی مارکیٹس، خاص طور پر خام مال اور برآمدات کے کاروبار پر پڑے گا۔

یہ بھی واضح رہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے مسلسل اضافی ٹیرف عائد کرنے سے عالمی سطح پر تجارتی تعلقات میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے، جو عالمی معیشت کو مزید متاثر کر سکتا ہے۔ اس کشیدہ صورتحال میں عالمی رہنماؤں کی جانب سے مداخلت اور مذاکرات کی ضرورت بڑھ گئی ہے تاکہ اس بحران کو کسی قابل قبول حل کی جانب لے جایا جا سکے۔

اس تجارتی جنگ کا اگلا مرحلہ کیا ہوگا اور دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلے گا، یہ دیکھنا باقی ہے۔

Shares: