ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ میں امن کا وعدہ، کیا یہ ممکن ہوگا؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
کیا ڈونلڈٹرمپ واقعی مسلم دنیا کے لیے بہتر ہیں؟ کیاڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں امن قائم کر پائیں گے ،کیا واقعی جنگ وجدل کا خاتمہ ہوجائے گا ؟یہ سوال ہر کسی کے زبان پر ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوچکے ہیں تو یہ مسلم دنیا کے لیے کس طرح کی امیدیں اور امکانات پیدا کر سکتا ہے؟ ان کے سابقہ دور حکومت میں خلیجی ممالک کی خوشیاں اور ایران کے خلاف سخت موقف نے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی،نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلوریڈا میں وکٹری سپیچ میں جاری جنگیں ختم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کوئی نئی جنگ شروع نہیں کریں گے۔ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں گے۔ اپنے ملک کو محفوظ بنانے کیلئے تمام اقدامات کریں گے۔ڈونلڈٹرمپ بطور صدر پیر 20 جنوری 2025 کو یو ایس کیپیٹل کمپلیکس میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطی میں دیرپا امن قائم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن یہ ایک پیچیدہ اور چیلنج سے بھرپور معاملہ ہے۔نومنتخب امریکی صدرکو اس خطے کے مسائل کا سامنا ہوگا، جب وہاں شدید تنازعات اور عدم استحکام پایا جا رہا ہے۔ ان کی اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات اور فلسطین کے حوالے سے ان کے متنازعہ بیانات نے دنیا بھر میں ان کی پالیسیوں پر سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے۔
اسرائیل اور فلسطینی حماس کے درمیان جاری جنگ جس کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے ہوا، مشرق وسطی میں بڑھتے ہوئے تنا ئوکی تازہ ترین مثال ہے۔ اس جنگ میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہے ۔ غزہ کی صورتحال انسانیت کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے اور بین الاقوامی برادری اس تنازع کو ختم کرنے میں عملاََ ناکام دکھائی دیتی ہے۔ڈونلڈٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا اسرائیل کی حمایت میں بات کی ہے اور یہ اصرار کیا ہے کہ غزہ کی جنگ کو جلد از جلد ختم ہونا چاہیے۔ ان کے بیانات نے دنیا بھر میں کئی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ، اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان قریبی تعلقات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی دوسری صدارت اسرائیل کو مزید حمایت فراہم کرے گی۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت میں اسرائیل کے حق میں کئی بڑے فیصلے کیے تھے، جیسے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ کوقانونی قرار دیا۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری جنگی صورتحال کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ اسرائیل کے کشیدہ تعلقات، لبنان میں حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اور عراق و یمن میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کی موجودگی خطے کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں۔ اسرائیل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ایران کا جوہری پروگرام ہے، جو خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔ٹرمپ نے ان تمام چیلنجوں کے باوجود امن کے قیام کا وعدہ کیا ہے مگر ان کے پاس اس کی واضح حکمت عملی نظر نہیں آرہی۔ وہ بارہا اسرائیل سے کہہ چکے ہیں کہ وہ "کام ختم کریں” یعنی حماس کو شکست دیں مگر یہ واضح نہیں کہ اس کے بعد کے حالات کو کیسے سنبھالا جائے گا۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی پالیسیز میںشفافیت کا فقدان ہے جس سے خطے کی صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔
ٹرمپ کے اسرائیلی وزیر اعظم سے اس قدر قریبی تعلقات ہیں کہ اپنی پہلی صدارت کے دوران ٹرمپ نے نیتن یاہو کی سخت گیر پالیسیوں کی کھل کر حمایت کی تھی خاص طور پر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکل گئے تھے ۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے ایک منصوبہ پیش کیا جسے دنیا بھر میں اسرائیل کی حمایت کے طور پر دیکھا گیا۔تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت جو اس وقت انتہائی دائیں بازو کی پالیسیوں کی حامی ہے اورٹرمپ کی دوسری صدارت کو اسرائیل کے لیے مزید فوائد کی امید کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی خطے کے دیگر معاملات میں ٹرمپ کی مداخلت کس حد تک مئوثر ہوگی اس پر سوالیہ نشان ہے۔
اسرائیلی قیادت اور ٹرمپ کے درمیان قریبی تعلقات کے باوجود غزہ کی جنگ کے بعد کے حالات کے حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ نیتن یاہو کی حکومت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ اگر جنگ حماس کی مکمل شکست کے بغیر ختم ہوئی تو ان کی حکومت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس کے برعکس بائیڈن انتظامیہ اور مغربی طاقتیں غزہ کو فلسطینی اتھارٹی کے تحت رکھنے کے حامی ہیں مگر اسرائیل نے اس خیال کو مسترد کر دیا ہے۔
ایران کے ساتھ کشیدگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ اور دیگر گروہوں کے ساتھ اسرائیل کے تنازعات کے باعث مشرق وسطیٰ میں تنائو بڑھ گیا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ جاری کشیدگی، جس میں ہزاروں افراد بے گھر اور درجنوں ہلاک ہو چکے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خطے کی صورتحال کتنی خراب ہے۔ ٹرمپ کے لیے سوال یہ ہے کہ کیا وہ امریکہ کے اندرونی مسائل کو ترجیح دیں گے یا خطے میں اسرائیل کی مدد کے لیے مزید اقدامات کریں گے؟
ڈونلڈٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا یہ کہا کہ وہ ملکی معاملات پر زیادہ توجہ مرکوز کریں گے لیکن مشرق وسطیٰ کی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ان کے داماد جیرڈ کشنر جو مشرق وسطیٰ کے معاملات میں سرگرم کردار ادا کر چکے ہیں ایک بار پھر کلیدی حیثیت میں آ سکتے ہیں۔ ان کی اسرائیل نواز پالیسیز اورمذہبی عیسائیوں کی طرف سے حمایت بھی ان کے فیصلوں کو متاثر کر سکتی ہے۔مجموعی طور پر ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کے لیے کوئی بھی فیصلہ خطے کی صورتحال کو مزید بگاڑ بھی سکتا ہے اور شاید اسے بہتر بھی کر سکتا ہے مگر اس کا انحصار ان کی پالیسیوں کے واضح ہونے اور خطے کے دیگر عوامل پر ہوگا۔









