ٹرمپ کا سچ، مودی سرکار کے لیے سونامی بن گیا
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 19 جولائی 2025 کے بیان نے بھارتی سیاست میں زلزلہ پیدا کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ مئی 2025 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روزہ جنگ کے دوران پاکستان نے بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے۔ ان کے اس غیر متوقع بیان نے نہ صرف نریندر مودی کی حکومت کو شدید دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا بلکہ بی جے پی کے اُس بیانیے کو بھی چکناچور کر دیا جو "آپریشن سندور” کو بھارتی فتح اور مودی کی قیادت کا مظہر قرار دیتا تھا۔
بی جے پی حکومت اس آپریشن کو ایک بڑی سفارتی اور عسکری کامیابی کے طور پر پیش کر رہی تھی، لیکن ٹرمپ کے انکشاف نے سوالات کی ایک نئی لہر کو جنم دے دیا ہے۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے فوری طور پر اس موقع کو سیاسی حملے کے لیے استعمال کیا۔ راہول گاندھی نے ایکس پر ٹرمپ کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہاکہ "مودی جی، پانچ طیاروں کا سچ کیا ہے؟ قوم جاننا چاہتی ہے۔” کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے مطالبہ کیا کہ حکومت آپریشن سندور کے نقصانات اور جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھے۔ اُنہوں نے کارگل ریویو کمیٹی کی طرز پر ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن بنانے کی بھی تجویز دی۔
پارٹی کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے یہ الزام عائد کیا کہ مودی حکومت نے جان بوجھ کر جنگی نقصانات کو چھپایا۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ انڈونیشیا میں تعینات بھارتی دفاعی اتاشی کیپٹن شیو کمار نے نجی ملاقاتوں میں تسلیم کیا ہے کہ پانچ طیارے تباہ ہوئے تھے، لیکن حکومت نے خاموشی اختیار کی۔ پون کھیڑا نے ایکس پر لکھا کہ مودی اپوزیشن سے اس لیے بھاگ رہے ہیں کہ وہ سچ کو سامنے لانے سے قاصر ہیں۔
متعدد اپوزیشن جماعتوں نے اس معاملے پر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے، آل پارٹی کانفرنس کرنے اور مودی حکومت کو مکمل شفافیت کے لیے مجبور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بینرجی نے الزام لگایا کہ مودی کی جارحانہ خارجہ پالیسی نے بھارت کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ ایکس پر ہزاروں صارفین نے مودی حکومت کی پالیسیوں کو ناکام اور عوام دشمن قرار دیاجبکہ بعض غیر مصدقہ اطلاعات میں یہ تک کہا گیا کہ فوج اور عوام دونوں سطحوں پر بے چینی بڑھ رہی ہے۔
معروف صحافی کرن تھاپر نے لکھا کہ "آپریشن سندور ایک جھوٹی سیاسی کہانی تھی، جس کا مقصد بی جے پی کی گرتی ساکھ کو وقتی سہارا دینا تھا۔” دفاعی تجزیہ کار اجے ثانی نے کہا کہ میڈیا نے جان بوجھ کر حقائق کو چھپایا تاکہ مودی حکومت کی ناکامی بے نقاب نہ ہو۔
اس تمام پس منظر میں معاشی مسائل، بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں کے احتجاج اور اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت انگیز پالیسیوں نے حکومت کے لیے زمین مزید کھسکنے جیسی کر دی ہے۔ ہندوتوا پر مبنی طرز حکمرانی اور میڈیا کی یکطرفہ حمایت نے عوامی غصے میں مزید شدت پیدا کی ہے۔ اپوزیشن اتحاد "انڈیا” نے ان تمام عوامل کو جوڑ کر بی جے پی کو آمرانہ، غیر شفاف اور عوام دشمن حکومت قرار دیا ہے۔
اس پورے تنازع میں ایک اور پہلو یہ ہے کہ مودی حکومت عالمی سطح پر بھی دباؤ کا شکار ہو چکی ہے۔ پاکستان کے خلاف جنگ بندی کے فیصلے کو بی جے پی نے دو طرفہ سفارتی کامیابی قرار دیا، مگر ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کی مداخلت نے اسے بھارتی خودمختاری پر سوالیہ نشان بنا دیا۔ وزیر خارجہ جے شنکر نے اگرچہ اسے دوطرفہ مشاورت کا نتیجہ قرار دیا مگر اپوزیشن اسے امریکی دباؤ کا نتیجہ سمجھتی ہے۔
عالمی سطح پر مودی حکومت کو میانمار میں کی گئی فوجی کارروائیوں پر بھی شدید تنقید کا سامنا ہے، جسے بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کا حالیہ انکشاف ان تمام چیلنجز کو ایک جگہ سمیٹ کر بی جے پی کے بیانیے پر کاری ضرب لگا چکا ہے۔
اب مودی حکومت کے لیے اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اس سونامی کا سامنا کس طرح کرتی ہے۔ کیا وہ حقائق کو سامنے لا کر شفافیت کا راستہ اپنائے گی یا ہمیشہ کی طرح میڈیا، بیانیے اور جارحانہ تقاریر کے سہارے اپنی ساکھ بچانے کی کوشش کرے گی؟
یا پھر کوئی اور فالزفیلگ اپریشن کے راستے پر چلنے کی کوشش کریگی،جیسا مودی سرکار ماضی میں کئی بار ایسا کرچکی ہے.
وقت بتائے گا کہ ٹرمپ کا سچ مودی سرکار کے لیے اٹھنے والا سونامی کس سمت بہتا ہے،کیا یہ صرف بی جے پی کے سیاسی بیانیے کو بہا کر لے جائے گا یا اقتدار کی بنیادیں بھی ہلا ڈالے گا؟