تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے افغان طالبان کے دباؤ کے بعد اپنے بعض روایتی نام چھوڑ کر مختلف نئے ناموں کے تحت کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس فیصلہ کے پیچھے ترکی میں طے پانے والے کسی معاہدے اور افغان طالبان کی جانب سے دھرائے جانے والے سیاسی و عسکری اثر و رسوخ کا ہاتھ ہے۔
گزشتہ روز پشاور کے نواحی علاقے جنا کوڑ میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری "تحریکِ طالبان لبیک فورس” نے قبول کی ہے، اور اس کا ترجمان غازی ممتاز قادری نامزد کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سیکورٹی حکام نے ابھی تک اس دعوے کی آزادانہ تصدیق کرنے سے گریز کیا ہے اور واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔جس ایکس اکاؤنٹ سے پوسٹ کی گئی تھی بعد ازاں اس پوسٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا،

باخبر ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی صف بندی اور شناخت چھپانے کے لیے مختلف نام استعمال کر رہی ہے تاکہ افغان طالبان کے دباؤ، بین الاقوامی نظرِ عامہ اور سکیورٹی اداروں کی توجہ سے بچا جا سکے۔دوسری جانب تحریک لبیک کو تنظیم بنانا اور ممتاز قادری مرحوم کے نام پر ترجمان بنانا تحریک لبیک کے کارکنوں کو ورغلانے کی کوشش ہےتاکہ وہ بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ شامل ہوکر حملے شروع کر دیں،جبکہ باقی تنظیموں کے نام بیت المقدس وغیرہ پر رکھنے کا مقصد ہے کہ جن لوگوں کو فلسطین یا غزہ سے ہمدردی ہے اور وہ وہاں پر اسرائیل کے خلاف مزاحمت چاہتے ہیں وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائے اور اسرائیل کی بجائے پاکستان کے خلاف جنگ شروع کردے ، ماضی میں ٹی ٹی پی نے مختلف نام اختیار کیے جانے کی تاریخ موجود ہے، انصار الشریعہ، انصار الجہاد، جیش المہدی، جیش بیت المقدس، جیش الافغان، وغیرہ اور اب اسی طرزِ عمل کے تحت نئے نام اپنائے جا رہے ہیں۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایسے نام رکھنے سے وہ دنیا کی سطح پر براہِ راست شناخت سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور افغان طالبان کے دباؤ کے اثرات سے بھی کچھ حد تک بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔ تاہم، یہ ماہرین اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ اس طریقِ کار سے اندرونی انتشار، فرقہ وارانہ فسادات اور بیرونی مداخلت کے بہانے بڑھ سکتے ہیں۔
تجزیہ نگاروں اور سکیورٹی مبصرین کے مطابق ناموں کی تبدیلی کے ذریعے کارروائیوں کی شناخت چھپانے کی کوشش سے دہشت گرد گروہ اپنی کارروائیوں کو منطقی و نظریاتی لیبل دے کر مقامی بھرتی اور حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔نئی تنظیمی صف بندی سے علاقائی استحکام متاثر ہو سکتا ہے اور اندرونی سکیورٹی چیلنج بڑھے گا۔ماہرین سفارش کرتے ہیں کہ حکومت اور سکیورٹی ادارے حملوں کی شفاف اور فوری تفتیش کریں اور ذمہ دار عناصر کو بے نقاب کریں۔سوشل میڈیا اور اطلاعاتی ذرائع پر گردش کرنے والے دعوؤں کی صداقت کی جانچ کرائیں تاکہ غلط معلومات و پروپیگنڈے کو بروقت روکا جا سکے۔مقامی کمیونیٹیز اور مذہبی قائدین کے ساتھ رابطے مضبوط کیے جائیں تاکہ تشدد کے بیانیے کی روک تھام ممکن ہو۔








