تجھ سے سب کچھ کہہ کے بھی کچھ ان کہی رہ جائے گی

ڈاکٹر خالد سہیل مشہور ماہرِ نفسیات، ناول نگار، افسانہ نگار، ادیب اور شاعر ہیں
0
37
dr khalid suhail

حرص کے طوفاں میں ڈھہ جائیں گے سارے محل
شہر میں درویش کی اک جھونپڑی رہ جائے گی

خالد سہیل

پیدائش:09 جولائی 1952ء
کراچی، پاکستان
شہریت:پاکستانی
تعلیم:ایم بی بی ایس
مادر علمی:خیبر میڈیکل کالج
پشاور میموریل یونیورسٹی، کینیڈا
اصناف:ماہر نفسیات، افسانہ نگاری

نمایاں کام:
۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)مذہب ، سائنس ، نفسیات
۔ (2)شائزو فرینیا
۔ (3)Love Letters to Humanity
۔ (4)Freedom of Religion
۔ (5)The art of living
۔ in your Green Zone

ڈاکٹر خالد سہیل مشہور ماہرِ نفسیات، ناول نگار، افسانہ نگار، ادیب اور شاعر ہیں ۔
حالاتِ زندگی
۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر خالد سہیل 09 جولائی 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پروفیسرعبدالباسط تھے۔ جو1947 میں امرتسر سے لاہور اور پھر 1954 میں لاہور سے کوہاٹ ہجرت کی۔ وہ گورنمنٹ کالج کوہاٹ میں بھی شعبہِ ریاضی کے استاد رہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے ابتدائی تعلیم پشاور سے ہی حاصل کی۔ بی ایس سی مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر خالد سہیل نے 1974 میں خیبر میڈیکل کالج پشاور سے ایم بی بی ایس کیا۔

ایک سال کے ہاؤس جاب کے بعد ایران چلے گئے۔ پھر انہوں نے 1977 میں کنیڈا کی میموریل یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ 1983 میں انہوں نے فیلو شپ ( ایف۔ آر۔ سی۔ پی ) کا امتحان پاس کیا۔ انھوں نے چند سال مختلف ہسپتالوں میں کام کیا۔ وہ 1995 سے لے کر اس وقت تک اپنی نرسوں این ہینڈرسن اور بے ٹی ڈیوس کے ساتھ اپنے(کریٹو سائیکو تھراپی کلینک )میں کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر خالد سہیل نہ صرف بہترین ماہرِ نفسیات اور ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں بلکہ انھیں اردو ادب سے بھی گہرا لگاؤ ہے اور ان کے افسانے، کالم اور شاعری اور تراجم مختلف اخبارات اور مجلوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

تصانیف
۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر خالد سہیل کی تقریباً 66 کتب اردو اور انگریزی میں اب تک شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں ادبی موضوعات کی بھی کتب ہیں لیکن زیادہ تر کتب نفسیاتی مسائل سے متعلق ہیں۔

اردوتصانیف
۔۔۔۔۔۔۔
شاعری
۔۔۔۔۔۔۔
۔ 1۔ تلاش(شاعری)
۔ 1986
۔ 2۔ سمندر اور جزیرے
۔ (شاعری)2006

افسانے
۔۔۔۔۔۔
۔ 1۔ ادھورے خواب
۔ (افسانے، مضامین)2013
۔ 2۔ زندگی میں خلا (افسانے)
۔ 1987
۔ 3۔ دو کشتیوں میں سوار
۔ (افسانے)1994
۔ 4۔ دھرتی ماں اداس ہے
۔ (افسانے)1997
۔ 5۔ چند گز کا فاصلہ(افسانے)
۔ 2013
۔ 6۔ ادھورے خواب
۔ (افسانے۔ مضامین)2013

ناول
۔۔۔۔۔
۔ 1۔ ٹوٹا ہوا آدمی(ناول)1990
۔ 2۔ ورثہ(لوک کہانیاں)1993
۔ 3۔ دریا کے اس پار
۔ (ناولٹ)1997

مضامین
۔۔۔۔۔
۔ 1۔ انفرادی اور معاشرتی نفسیات
۔ (مضامین اور خطوط)1991
۔ 2۔ پگڈنڈیوں پہ چلنے والا مسافر
۔ (مضامین۔ انٹرویو)1996[4]
۔ 3۔ میرے قبیلے کے لوگ
۔ (مضامین)1998

فلسفہ
۔۔۔۔۔
۔ 1۔ بھگوان،ایمان،انسان
۔ (فلسفہ)1988
۔ 2۔ خدا، مذہب اور ہیومنزم
۔ (فلسفہ)2006
۔ 3۔ انسانی شعور کا ارتقا
۔ (فلسفہ)2012

تراجم
۔۔۔۔۔
۔ 1۔ سوغات (تراجم)
۔ 1987
۔ 2۔ مغربی عورت، ادب اور زندگی
۔ 1988
۔ 3۔ کالے جسموں کی ریاضت
۔ (ترجمہ)1990
۔ ( ترجمہ خالد سہیل، جاوید دانش)
۔ 4۔ اک باپ کی اولاد
۔ (مشرقِ وسطیٰ کا ادب)1994
۔ 5۔ ہر دور میں مصلوب1995
۔ 6۔ اپنا اپنا سچ(سوانح عمری)
۔ 2009

سیاست اور نفسیاتی تجزیئے
۔۔۔۔۔۔
۔ 1۔ امن کی دیوی
۔ خلیج کی جنگ(1992)
۔ 2۔ سماجی تبدیلی(ارتقا یا انقلاب)
۔ 2009
۔ 3۔ القاعدہ، امریکا اور پاکستان
۔ (سیاست)2011
۔ 4۔ اپنا قاتل(سیریل قاتل کی نفسیات)
۔ 2003
۔ 5۔ شائزو فرینیا
۔ (نفسیات)1998
۔ 6۔ نفسیاتی مسائل اور ان کا علاج
۔ (از خالد سہیل، گوہر تاج) 2011
۔ 7۔ مذہب، سائنس، نفسیات
۔ 8۔ ہجرت کے دکھ سکھ
۔ (از خالد سہیل، گوہر تاج )2016

آڈیو کتب
۔۔۔۔۔۔
۔ 1۔ تازہ ہوا کا جھونکا (شاعری)
۔ 2۔ چنگاریاں (افسانے)
۔ 3۔ دور کی آواز(نظمیں۔ آواز: ترنم ناز)

غزل
۔۔۔۔۔
تجھ سے سب کچھ کہہ کے بھی کچھ ان کہی رہ جائے گی
گفتگو اتنی بڑھے گی کچھ کمی رہ جائے گی
اپنے لفظوں کے سبھی تحفے تجھے دینے کے بعد
آخری سوغات میری خامشی رہ جائے گی
کشتیاں مضبوط سب بہہ جائیں گی سیلاب میں
کاغذی اک ناؤ میری ذات کی رہ جائے گی
حرص کے طوفان میں ڈھہ جائیں گے سارے محل
شہر میں درویش کی اک جھونپڑی رہ جائے گی
چھوڑ کر مجھ کو چلے جائیں گے سارے آشنا
صبح دم بس ایک لڑکی اجنبی رہ جائے گی
رات بھر جلتا رہا ہوں میں سہیلؔ اس آس میں
میں تو بجھ جاؤں گا لیکن روشنی رہ جائے گی

غزل
۔۔۔۔۔
ہماری ذات کے جب در کھلے ہیں
کبھی اندر کبھی باہر کھلے ہیں
ہمارے گھر میں وہ اپنائیت ہے
وہاں آ کر کئی بے گھر کھلے ہیں
خزاؤں میں جو ڈوبے تھے تو ہم پر
بہاروں کے حسیں منظر کھلے ہیں
بظاہر وہ بہت ہی کم سخن تھے
کتابوں میں مگر جوہر کھلے ہیں
جو بالوں میں سفیدی آ گئی ہے
تو پھر جا کر کہیں خود پر کھلے ہیں

غزل
۔۔۔۔۔
سجا سجا سا نئے موسموں کا چہرہ ہے
خزاں کا حسن بہاروں سے بڑھ کے نکھرا ہے
رفاقتوں کے سمندر میں شہر بستے ہیں
ہر ایک شخص محبت کا اک جزیرہ ہے
سفر نصیب ہوا جب سے شاہراہوں پر
تو فاصلوں کا بھی احساس مٹتا جاتا ہے
ہمارے دور کی تاریکیاں مٹانے کو
سحاب درد سے خوشیوں کا چاند ابھرا ہے

نظم
۔۔۔۔۔
خواب نگر
۔۔۔۔۔
میرا من اک خواب نگر ہے
میرے من کی گلیوں، بازاروں اور چوراہوں میں
لفظوں، رنگوں اور خوشبوؤں کی
ہلکی ہلکی بارش ہوتی رہتی ہے
میرا من اک خواب نگر ہے
میرے من میں
چاہ کے چشمے
امن کی نہریں
آس کے دریا
پیار سمندر
ہر سو بہتے رہتے ہیں
جن میں نہا کر
اپنے بھی بیگانے بھی
دانائی کی دھوپ میں لیٹے
سحر زدہ سے رہتے ہیں
میرا من اک خواب نگر ہے
میرے من میں
درویشوں کا ڈیرا بھی ہے
اس ڈیرے پر
شاعر، صوفی، پاپی، دانا سب آتے ہیں
کچھ سپنے وہ لے جاتے ہیں
کچھ سپنے وہ دے جاتے ہیں
ان سپنوں کی دھرتی سے جب
غزلوں، نظموں، گیتوں کے کچھ
پھول کھلیں تو برسوں پھر وہ
خواب نگر کو مہکاتے ہیں
میرا من اک خواب نگر ہے
میرے من کی گلیوں، بازاروں اور چوراہوں پر
لفظوں، رنگوں اور خوشبوؤں کی
ہلکی ہلکی بارش ہوتی رہتی ہے

Leave a reply