تم آو انیسہ سے اگر ملنے کی خاطر
بدھ وار بھی ہوگا اتوار مری جان
انیسہ صابری
والد کا نام:محمد اسحاق انصاری (مرحوم)
والدہ کا نام:کلثوم النساء (مرحؤمہ)
شوہر کا نام: محمد صابر انصاری
تاریخ ولادت:27 اپریل 1977ء
جائے پیدائش :انصار نگر، گواہ چوک
ویشالی، بہار
موجودہ پتہ :4 بنواری لال رائےروڈ
پیل خانہ، ہوڑہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعارف: آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. ۔۔
انیسہ صابری کا اصل نام انیسہ انصاری ہے مگر 11 مئی 1994 میں محمد صابر انصاری سے شادی ہونے کےبعد اپنے شوہر کے نام کی نسبت سے انیسہ صابری کا نام اختیار کیا۔ انہوں نے 2015 سے شاعری کی ابتدا کی اور فیروز اختر سے شاعری میں اصلاح لی ۔ انیسہ کے شوہر ہندی زبان کے معروف شاعر اور صحافی ہیں۔ انیسہ اور محمد صابر انصاری کو اللہ تعالی نے 3 بچوں فاطمہ صابری محمد شارق انصاری اور سلیمہ صابری کی اولاد کی نعمت سے نوازا مگر 4 مئی 2007 کو ان کا 5 سالہ اکلوتا بیٹا شارق انصاری اپنے محلے کے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اچانک غائب ہو گیا جس کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ۔ اس عظیم سانحے اور صدمے نے ان دونوں کو نڈھال کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ محض زندہ لاش بنے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ لوگ دنیاوی امور خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دے رہے ہیں۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بجھتے ہوئے دیئے کو جلایا ہے آپ نے
دل میں مرے خوشی کو جگایا ہے آپ نے
ایسے نظر کا تیر چلایا ہے آپ نے
دل کو مرے دیوانہ بنایا ہے آپ نے
غم آپ نے دیئے تو مرا حوصلہ بڑھا
کیسے کہوں کہ دل کو دکھایا ہے آپ نے
ہیں کس کے انتظار میں آنکھیں بچھی ہوئیں
کس کے لیے یہ گھر کو سجایا ہے آپ نے
لوگوں نے خوب داد بھی دی ، تالیاں بجیں
محفل میں جو بھی شعر سنایا ہے آپ نے
دنیا کی چشم آپ پہ اس وقت ہے اٹھی
جب بارِ غم انیسہ اٹھایا ہے آپ نے
غزل
۔۔۔۔۔
زخم طعنوں سے بھر رہی ہوں میں
اور تجھے یاد کر رہی ہوں میں
دل کو ہے یہ گماں ، تُو آئے گا
تیری خاطر سنور رہی ہوں میں
آرزو تم سے ملنے کی ہے مگر
پر زمانے سے ڈر رہی ہوں میں
مجھ کو یاد آتا ہے سدا وہ پل
جب تری ہم سفر رہی ہوں میں
جس پہ چلتی تھی ساتھ میں تیرے
اس سے اب بھی گزر رہی ہوں میں
میں انیسہ کسی کی ہو نہ سکی
آج بھی اس پہ مر رہی ہوں میں
غزل
۔۔۔۔۔
انکار کرو یا کرو اقرار مری جان
الفت نہیں جاتی کبھی بیکار مری جان
زحمت تو ذرا ہوگی مگر دیکھ لے اس کو
بیمار ترا ہے پسِ دیوار مری جان
ظالم ہے کوئی اور کوئی مظلوم جہاں میں
ہے سب کا الگ دہر میں کردار مری جان
گر ساتھ ترا ہو تو نہیں غم کوئی مجھ کو
ہر دن ہے مرے واسطے تہوار
تم آؤ انیسہ سے اگر ملنے کی خاطر
بدھوار بھی ہو جائے گا اتوار مری جان